آزاد کشمیر کی آئینی حیثیت اور حقوق

Azad Kashmir

Azad Kashmir

میں آزاد کشمیر کے پبلک سروس کمیشن اور ہائی کورٹ کے مہاجرین کی اسمبلی نشستوں کے متعلق فیصلوں پر تبصرہ کرنے بیٹھا تھا کہ معلوم ہوا آزاد جموں وکشمیر کونسل کا اجلاس وزیراعظم پاکستان نے 03 دسمبر کے لئے مظفرآباد بلایا ہے جس کی مناسبت سے پہلے وزیراعظم پاکستان اور پاکستانی قومی اسمبلی کے نامزد اور دیگر ممبران کی توجہ کے لئے آزاد کشمیر کی حیثیت کو گوش گذار کرنا ضروری محسوس کیا۔

آزاد کشمیر کے آئین کی دفعہ 02کے تحت آزاد کی تعریف ان الفاظ میں کئی گئی ہے:
‘Azad Jammu and kashmir’
“Means the territoies of the State of Jammu and Kashmir which have been liberated by the people of that state and are for the time being under the administration of Government and such other territories as may hereafter come under its administration”
لفظ گورنمنٹ کی تعریف بھی اسی دفعہ کے تحت یوں کی گئی ہے:
“Means the Azad government of the State of Jammu and
Kashmir”

سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت آزاد کشمیر کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے لیکنUNCIP کے 03اگست 1948 کی قرارداد کے تحت ریاست کے آزاد علاقوں کو”Evacuated territory” اور”Local Authority” کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ان الفاظ کی وضاحت کمیشن کے نمائندہ Korbel نے 02 ستمبر 1948 کو ان الفاظ میں کی ہے:
“Evacuated” means the area which is under the control of the Pakistan High Command, including for this purpose the Pakistan Army, the Azad Kashmir Forces, and tribesmen”
جبکہ”Local Authority” کی تعریف یوں کی گئی ہے:
“Local Authority”Means the Azad kashmir people, though we cannot grant recognition to the Azad KashmirGovernment”.
اسی نمائندہ نے 31اگست 1948کو ایک وضاحت میں کہا :
“Subject to the Comission’s ‘survilliance’, the ‘local authorities’ will have full political and administrative control, and will be Responsible for the maintenance of law and order and security”.

سلامتی کونسل کی قراردادوں اور ان وضاحتوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو آزادکشمیر میں ایسا کچھ بھینہیں بلکہ اس کے برعکس آزادکشمیر حکومت پاکستان کے دئے گئے آئین اور انتظامی احکامات کے تحت ایک انتظامی یونٹ ہے۔جس کو باقی صوبوں کی طرز پرلیکن بغیر صوبائی حقوق واختیارکے ایک صوبے کے طور چلایا جا رہا ہے جس کا حتمی کنٹرول حکومت پاکستان اور اس کی جانب سے مامور بیوروکریسی کے پاس ہے اور باقی صوبوں کے برعکس، کسی قومی یا مقامی منتخب ادارے کے پاس جواب دہ نہیں ہیں۔

ہمارے چندسیاست دانوں کی یہ بیان بازی کہ آزادکشمیر کی حکومت ساری ریاست کی نمائندہ حکومت ہے،اس قانونی صورتحال کے موجودگی میں محض سیاسی شعبدہ بازی ہے۔کمیشن کے نمائندہKorbelنے02ستمبر1948کو مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے :

“We have gon as far as we could to meet the point of view of the Azad Kashmir people. We have tried to deal with the Defacto situation. But we cannot lose sight of the fact that the State of Jammu and Kashmir still exists as a legal entity, We have to respect its sovereignty”.

قانون کے طالبعلم کی حیثیت سے میری رائے ہے کہ جب تک 13اگست 1948کی قراردادوں کی روشنی پر من وعن عمل نہیں ہوتا اس وقت تک آزادکشمیر لوکل اتھارٹی کی تعریف میں نہیں آسکتا بلکہ1949کی جنگ بندی اورہندوستان اور پاکستان کے درمیان دیگر معاہدوں کی روشنی میں کشمیر کے مسئلہ کے حتمی حل تک آزادکشمیر پاکستان کے زیر انتظام حصہ ہے جس کی وجہ سے ہی 1971اور1988میں اس کو باقی صوبوں کے مطابق درجہ دینے کے نوٹیفکیشن جاری کئے گئے ہیں لیکن ان نوٹیفکیشنزاور یو این قراردادوں کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا۔

Government of Pakistan

Government of Pakistan

پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد پاکستان کے تمام صوبوں کو اندرونی طور پر با اختیار بنایا گیا ہے لیکن آزادکشمیر حکومت پاکستان کے چوہرے کنٹرول میں ہے جن میں حکومت پاکستان کے علاوہ، کشمیر منسٹری، کشمیر کونسل اور لینٹ آفیسران شامل ہیں۔یہ نہ صرف حکومت پاکستان کے آئین کی روح کے خلاف ہے بلکہ انسانی حقوق، تحریک آزادی کشمیر اور آزادکشمیر کے لوگوں کی قربانیوں سے بھی انحراف ہے۔ اس کا مناسب اور احسن ترین حل یہ ہے کہ پاکستان اور آزادکشمیر کے آئین میں ترمیم کر کے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر کے مسئلہ کے حتمی حل تک آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو ان کی متنازعہ پوزیشن بحال رکھتے ہوئے وہ تمام حقوق، اختیارات اور وسائل دئے جائیں جو باقی صوبوں کو اٹھارویں ترمیم کے تحت دئے گئے ہیں جن میں پارلیمنٹ IRSA۔NFC۔N.E.C۔C.C.Iوغیرہ میں نمائندگی بھی شامل ہے جبکہ مرکزی نوعیت کے اختیارات حکومت پاکستان ان علاقوں کی کونسلز کو ختم کر کے اپنے پاس رکھے۔ یاد رہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت بھی ریاست کے لئے مرکزی اسمبلی میں نشیستں مختص تھیں۔

آزاد کشمیر کے آئین کے تحت آزاد کشمیر کی حکومت اس علاقے کے اندر رہنے والے لوگوں کے لئے اور ان کے حقوق کی ضامن ہے۔ جبکہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں آباد رریاستی باشندے متعلقہ صوبوں اور پاکستان کے آئین کے تحت وہاں حقوق کے حقدار ہیں جن کو خلطہ ملطہ کر کے آزادکشمیر کے لوگوں کے حقوق ریاستی باشندگان مقیم پاکستان میں بھی تقسیم کئے گئے ہیں جبکہ ان کو وہاں مقامی حکومتوں کے تحت باقی پاکستانی باشندوں کی طرح مکمل حقوق حاصل ہیں۔وفاقی ملازمتوں میں2.1/2فی صد کوٹہ جوصرف آزاد کشمیر کے لوگوں کے لئے ہے لیکن اس میں پاکستان میں مقیم ریاستی باشندوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے جن سے آزاد کشمیر کے نوجوان محروم ہو رہے ہیں۔ جنہیں یہاں رہنے کی سزا دی جا رہی ہے۔

آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبران اور حکومت میں بھی غیر مقیم ریاستی باشندوں کا1/4حصہ ہے جبکہ یہ لوگ نہ تواپنے بنائے ہوئے قانون کے پابند ہیں اور نہ ہی جواب دہ اور ٹیکس گذار۔

Justic Manzoor

Justic Manzoor

اس کے علاوہ آزادکشمیر کے بجٹ سے بھی ان حلقوں کے لئے حصہ لیتے ہیں جو وہاں کی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ استحصالی نظام کی بدترین مثال ہے۔ اس طرح کی اور کئی مشالیں ہیں جن کی وجہ سے علحدگی پسندی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے جو بالآخر ریاست پاکستان کی سلامتی کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس کا ادراک کیا جانا ناگزیر ہے۔

تحریر : جسٹس (ر) سید منظور حسین گیلانی
E-Mail: manzoorgillani@hotmail.com