شاید آپ سب کے علم میں ہو کہ ہمارے معاشرے کا تیسرا عنصر ”عوام ” پر مشتمل ہے۔ اسے ہم اپنی قوم کا سواد اعظم بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہماری کل آبادی کا غالباً اسّی فیصد’ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ یہ عوام اسلام سے گہری عقیدت اور مخلصانہ محبت رکھتے ہیں…اور ان غریبوں کو کئی روگ لگے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا اور بنیادی روگ یہ ہے کہ جس اسلام سے یہ بے پناہ عشق رکھتے ہیں اس کو جانتے نہیں ہیں۔ یا اگر جانتے ہیں تو اس پر عمل در آمد کو یقینی نہیں بناتے۔
بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف اسلام کی تفصیلات سے ہی نہیں، بلکہ اس کے اصول و مبادی تک سے شاید بے خبر ہیں۔ اسی لئے ہر ضال و مضل (گمراہ) شخص اسلام کا لباس پہن کر ان کو بہکا سکتا ہے۔ ہر غلط عقیدہ اور غلط طریقہ اسلام کے نام سے ان کے اندر پھیلایا جا سکتا ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ ہماری بے خبری بھی ہو سکتی ہے۔ اس پر مزید طُرّہ یہ کہ اس قوم کے اہلِ دماغ اور بااثر طبقوں نے انہیں اور بہت سے نئے روگ لگا دیئے ہیں۔
یہ غریب تعلیم کے لئے جدید درس گاہوں میں جاتے ہیں تو وہاں زیادہ تر مخلص اساتذہ دستیاب نہیں ہوتے جو ان کی صحیح ترجمانی کر سکیں۔ قدیم مدارس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اکثر مذہبی سوداگروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ دینی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو خطیبوں اور واعظوں کی عظیم اکثریت انہیں اپنے اپنے فرقے کی تعلیم سے آشنا کرتے ہیں۔ روحانی تربیت کے طالب ہوتے ہیں تو پیروں کی غالب اکثریت ان کے لئے رہزن ثابت ہوتی ہے۔
دنیوی معلومات کے سر چشموں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ان اخبارات اور رسائل سے ان کو سابقہ پیش آتا ہے جن کی بہت بڑی اکثریت ہماری قوم کے سب سے زیادہ ذیل طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ قومی اور ملکی معاملات کی سربراہ کاری کے لئے لیڈر ڈھونڈتے ہیں تو وہ زیادہ تر ملاحدہ اور نیم ملاحدہ اور مترفین کے گروہ سے نکلتے ہیں۔ اپنی معیشت کی تلاش میں رزق کے منبعوں کی طرف جاتے ہیں تو وہاں بیشتر ان لوگوں کو قابض پاتے ہیں جنہوں نے حرام و حلال کے امتیاز کو مستقل طور پر ختم کر رکھا ہے۔ غرض ہماری قوم کے وہ طبقے جو دراصل ایک قوم کے دل اور دماغ ہوتے ہیں اور جن پر اس کے بنائو اور بگاڑ کا انحصار ہوا کرتا ہے، اس وقت بد قسمتی سے ایک ایسا عنصر بنے ہوئے ہیں جو اسے بنانے کے بجائے بگاڑنے پر تُلا ہوا ہے اور بنائو کی ہر تصحیح و کارگر تدبیر میں رکاوٹ بنے نظر آتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا ایک باطل نظام کی گرفت میں آ چکی ہے اور باطل ایسی قوت و شوکت کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے کہ حق کے لئے موجودہ نظام زندگی میں کوئی جگہ ہی سرے سے باقی نہیں رہی ہے…نیک انسان، جو فی الحقیقت نیکی اور سچائی کے راستے ہی پر چلنا چاہتا ہے، آج چند قدم بھی بغیر مزاحمت کے نہیں اٹھا سکتا۔ اگر ”ڈور ”والے اسے تھوڑی دیر کے لئے بخش دیں تو قریب والے ہی اس سے الجھے ہیں اور کسی طرح نہیں چاہتے کہ وہ اپنی منتخب کی ہوئی راہ میں دو قدم بھی آگے بڑھ سکے۔ کسی نے کہا تھا کہ ” بدی کی راہ فراخ ہے اور اس پر چلنے والے بہت ہیں، اور نیکی کی راہ تنگ ہے اس کے چلنے والے تھوڑے ہیں۔”ان باتوں کا آج کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ باطل کی منزل پر پہنچنے کے لئے فراخ سڑکیں ہیں ، دو رویہ درختوں کا سایہ ہے، تیز رو سواریاں ہیں، حفاظت کے لئے بدرقہ ہے، ہر منزل پر عیش و آرام ہے۔
آپ جس وقت چاہیں اس پر سفر کر کے منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس حق کی راہ پہلے ہی قدم پر رُندھی ہوئی ہے۔ اگر آپ ہمت کر کے اس مزاحمت کو دور کر سکے تو آگے کی راہ میں ہر قدم پر خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ شروع سے لے کر آخر منزل تک خطرے کے سوا کچھ ہے ہی نہیں اور کوئی شخص اس راہ میں آج سر لئے ہوئے پائوں رکھ ہی نہیں سکتا۔
Allah
ایسے نازک اور پُر آشوب زمانے میں یہ بات ذرا تعجب انگیز نہیں ہے کہ لوگ راہ سے بے راہ ہو گئے۔ تعجب انگیز اگر کوئی بات ہے تو وہ یہ ہے کہ گمراہی کے اتنے سامان مہیا ہونے اور شیطان کے ایسے عالم گیر تسلط کے باوجود، خدا کے کچھ بندوں کو اللہ کا نام یاد کیسے رہ گیا۔ ! یہ بے چارے داد کے مستحق ہیں کہ کہ ملازمت کے، اور سینے سے لگا لیئے جانے کے لائق ہیں نہ کہ کاٹ پھینکے جانے کے۔ جن لوگوں نے اتنے نامساعد حالات کے اندر اپنی شمعِ ایمان زندہ رکھی اگرچہ وہ کتنی مضمحل حالت میں سہی، وہ اپنے پاس اس بات کی سند رکھتے ہیں کہ اگر ان کو موافق حالات میسر آتے تو وہ بہتر سے بہتر مسلمان ہوتے۔ اس وجہ سے ان کی غلطیوں اور غیر شعوری گمراہیوں یا اجطراری ضلالتوں کی بنا پر ان کو ایمان سے محروم قرار دے کر ان سے نفرت کرنے کے بجائے اس بات کی کوشش کرنی چاہیئے کہ ان میں ایمان و اسلام کے صحیح مقتضیات کا شعور بیدار کیا جائے۔
آج ملک میں جو ماحول ہے اور آگے دن جس طرح سے جرائم ہو رہے ہیں اسے دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ہمارا ملک راستہ بھٹک گیا ہے۔ یا پھر یہاں کے خوبصورت لوگ راستہ بدل چکے ہیں۔ ہم اپنے کلچر کو بھول گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں سخت قانونوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پھر بھی جرائم روزانہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ہمارا ملک صوفیوں کا ملک ہے۔ اور یہاں تشدد، بدعنوانی، نفرت اور رشوت ستانی ہو رہی ہے۔ آج دیکھیں تو روزانہ اخباروں اور ٹی وی چینلوں میں اس طرح کی خبروں کا انبار ہے۔
ہم صرف پیسہ کمانے کی دوڑ میں شامل ہیں، یہ پیسہ کہاں سے اور کیسے آ رہا ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ جس کی وجہ سے آج کا نوجوان طبقہ راہ سے بھٹک رہا ہے اور وہ غلط سمت جا رہا ہے۔ مہنگائی کی ضد ہے کہ وہ قائم رہے گی۔ پیاز، آلو ، ٹماٹر سمیت ساری سبزیوں کے دام آسمان کو چھو رہے ہیں۔ عام آدمی کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ غربت اور غریب آدمی سے متعلق ڈیپینیشن خطرناک ہے کیونکہ حقیقت اس کے بر خلاف ہے ہمارے یہاں ایسے لیڈروں کی کمی نہیں جو اپنی زبان پر قابو رکھنا نہیں جانتے ہیں اور نہ ہی عام شہریوں کا خیال رکھتے ہیں۔ موقع ملا اور جو منہ میں آیا کہہ دیا۔
انہیں تو صرف اعلیٰ کمان کی فکر ہے اور جو بھی بیان بازی کرتے ہیں وہ اعلیٰ کمان کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ اور جب عوام میں زبردست مخالفت کی جاتی ہے تو پارٹی ان کے بیان سے کنارہ کر لیتی ہے کہ یہ بیان ان کا ذاتی تھا۔ پارٹی پالیسی نہیں تھی۔ اسے چالاکی نہیں بلکہ مکاری کہیں گے آج پلاننگ ہو یا کوئی کمیشن ہو یا کوئی سیاستداں، عام آدمی کی طرح نہیں سوچتا۔ صورتحال ایس ہو گئی ہے کہ یہ شعر بالکل عوام پر صادق آتا ہے کہ:
بقاکی فکر کرو خود ہی زندگی کے لئے زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لئے
تمام حجت بس اتنا کہ عوام کے لئے کچھ کیا جائے، مہنگائی میں کمی، روزگار کی فراہمی اور دوسری بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی حکمرانوں کی ہی ذمہ داری ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مضبوط وزیراعظم کے دور میں یہ تمام کارنامے انجام دے دیئے جائیں۔ ہم تو بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ : شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے مری بات!