اقبال کے شاہینوں کا المیہ کیا ہے؟

Allama Iqbal

Allama Iqbal

احمد اعجاز چھوٹے شہر کا بڑا آدمی ہے وہ دانشور ہے، اکثر نئی نسل کا المیہ مجھ سے شیئر کرتا ہے نئی نسل کا دکھ اُس کے اندر جاگتا ہے اِسی دکھ کو اس نے محسوس کیا اور صفحہ ئِ قرطاس پر بکھیر دیا نئی نسل کا دکھ بیان کرتے ہوئے کرب کی لکیریں ہمیشہ اُس کی پیشانی پر نمایاں ہو جا تی ہیں۔

احمد اعجاز نے اپنی کتاب ”پاکستان میں شناخت کا بحران ” میں نسل نو کے حوالے سے ایک باب مرتب کیا ہے جس کا موضوع ہے ”ہم اپنے بزرگوں سے زیادہ کرپٹ کیوں ہیں ”اس میں وہ رقم طراز ہیں کہ جب ہمارے کچھ دانشور یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے تو میرے اندر ہنسی کا ایک چشمہ پھوٹ پڑتا ہے اس لمحے میں اپنے دانشوروں سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہمارا بڑا مسئلہ کرپشن نہیں تو اور کیا ہونا چاہیئے جب ہم پندرھویں اور سولہویں صدی میں رہ رہے ہیں اور ہمارے ارد گرد کی دنیا اکیسویں صدی میں ہے تو ہمارے رویئے اکیسویں صدی جیسے ہونے چاہیئے ؟جو دانشور یہ سمجھتے ہیں وہ بڑے مغالطے کا شکار ہیں میاں جب ہم اکیسویں صدی میں نہیں رہ رہے تو ہمارے رویئے اکیسویں صدی کے رویئے کیوں ہوں ؟وہ لکھتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی نے ہماری سوسائٹی کو عریاں کرکے رکھ دیا اور اس کے ساتھ ہی ہمارے نوجوانوں کو ایک شدید نوع کے احساس نے گھیر لیا اور وہ احساس تھا عدم تحفظ کا احساس ،نہ یہ ہماری کوئی شناخت ہے اور نہ ہی پہچان اور نہ ہی ہماری ذمہ داری ریاست قبول کرتی ہے تو ہم نے جینے کا انداز بدل لیا احمد اعجاز نے یقینا ایک کڑوے سچ کا ادراک کیا ہے اُن کے اس ادراک نے مجھے سوچ کی ایک نئی راہ دکھلائی اور میں نئی نسل کا المیہ لکھنے پر مجبور ہوا۔

Youth

Youth

یقینا احمد اعجاز نے اُس نسل کا مقدمہ لڑا ہے جو جو سڑکوں بازاروں تربتوں کے قریب اپنے آپ کو نشے میں مخمور کرتی ہے اور پھر اِس نسل کو بات کرنے والے کا لہجہ بھی یاد نہیں رہتا بے خود ہو کر پڑنے والی نسل کا کوئی تو ہو جو دکھ سمجھ سکے کیا یہ اس نسل کے بڑوں کی بد اعمالیاں نہیں جو یہ اپنی ذات کے دکھ اپنے ،اپنی ناکامیوں اور اپنی خواہشوں کے نڈھال کندھوں پر لیئے خود کو یہاں سے وہاں گھسیٹتی پھر رہی ہے ،جسے آنکھ کھولتے ہی ناخلف اور بے راہ روی کے راگ سننے کو ملیں ،جس کو بڑے ناکارہ سمجھ کر خود سے دور رکھتے ہوں یہ سچ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو سمجھا ہی نہیں گیا وہ جیتنا بھی چاہیں تو ہار جاتے ہیں اور ہمارے نوجوان کے ساتھ ایک ٹریجڈی یہ بھی ہے کہ اُس نے جب بھی جوانی اور تجربے کے فاصلے کو مٹانا چاہا تو اُسے جونیئر رینک کا طعنہ ملا جونیئر ہونا بُری بات نہیں مگر اس بات پر بڑے اتنا طنز کرتے ہیں کہ ہمارا نوجوان سنیارٹی سے وحشت زدہ ہو کر اندھیروں میں ڈوب رہا ہے اور آج نئی نسل یہ سمجھ رہی ہے کہ نشے کی لت میں پڑ کر وہ بے خودی کے اندھیرے میں چُھپ گئی۔

نہیں معصوم نوجوانو! احمد اعجاز سچ کہتا ہے تم اب بھی دنیا کی نظرمیں ہو بس تم لوگوں کا احساس اندھیروں میں ڈوب رہا ہے ہمارے مورث نے جب یہ ملک حاصل کیا تھا تو سب کو لگن تھی ،محبت تھی ،اِس وطن سے اور سب اپنوں کی طرح رہتے تھے پھر سب اِس وطن کی ترقی اور تشخص کیلئے کام کرنے لگے ترقی کی اس دوڑ میں سب بھاگتے رہے پر وقت کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص طبقہ کے اصول بدل گئے یہ وہ طبقہ تھا جو اپنی جاگیریں بچانے کیلئے بانی پاکستان کے ساتھ علیحدہ وطن کی جدوجہد میں شامل ہوا یہی وہ طبقہ تھا جس نے انگریز کے خلاف لڑی جانے والی آزادی کی جنگ میں غداروں کی فہرست میں اپنا نام لکھوایا یہ طبقہ وطن کی بجائے اپنے گھر کو سجانے میں لگ گیا،اپنی چار دیواری اونچی سے اونچی کرتا رہا جس کی نگاہ میں محض اپنے مفادات رہ گئے اقبال نے جس کو شاہین کا نام دیا تھا اِس طبقہ نے اُس شاہین کے پر نوچ ڈالے سچ تو یہ ہے کہ ہمارے بڑے بھی اعتماد ،محبت اور یگانگت کا ورثہ سنبھال نہ پائے اور کرپشن کی اس جنگ میں وہ بھی شامل ہوگئے سچی محبت ،بے غرض خلوص ،اس کرپشن اور آگے بڑھ جانے کی ہوس میں ہمارے دلوں سے ہجرت کر گئے۔

آج کتابی معاشرے اور اس معاشرے میں فرق محسوس کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہم سب دکھ بھری الجھن میں سانس لے رہے ہیں احمد اعجاز کے اس ادراک کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ہماری کوئی شناخت ہے ،نہ ہی پہچان اور نہ ہی ہماری ذمہ داری ریاست قبول کر رہی ہے تو ہم نے جینے کا انداز بدل لیا ہمیں اِس احساس نے گھیر لیا کہ ہم نے اپنی زندگی کو اپنے کاندھوں پر اُٹھانا ہے۔

کیا کسی نئے جوش ولولے سے بھرے نوجوان کے عزائم اور خوابوں کو چکنا چور کرنے کیلئے ایک دانشور کی یہ بحث کافی نہیں ہمارے ہاں ایک مثبت بحث کے دوران بد تمیزی اور نافرمانی جیسے طعنے بھی روز مرہ کا معمول ہیں ،کامیابی کی راہوں پر مطلب پرستی کے خار بچھائے جاتے ہیں ،خود داری کے گلے میں خود غرضی کی رسی ڈال کر دور تک کھینچنیکی کوشش کی جاتی ہے تجربہ اور جوانی ساتھ ساتھ چلے تو یہ دنیا ترقی کی راہ لگتی ہے مگر تجربہ اور جوانی جب اپنے اپنے مرکزوں ،اپنے اصولوں ،ضابطوں کے کھونٹوں سے بندھے ہوں اور اک دوجے سے منہ موڑے رکھیں تو فساد اور بغاوت جنم لیتی ہے یہی وجہ ہے کہ نفسیاتی طور پر ہماری آج کی نسل بے راہ روی ،بے دلی ،ناامیدی کا شکار ہے یہ ناامیدی بے زاری ،تشدد ،نفرت میں ڈھل کر دہشت گرد جنم دے رہی ہے ،نشے میں گرتے پڑتے بے خودوں کو جنم دے رہی ہے جن ہاتھوں مین قلم کتاب ہونا چاہیئے اُن میں جدید اسلحہ آگیا جو ہمیں ہی نہیں اِس زمین کو بھی پامال کر رہا ہے آج کی نسل کا ایک نفسیاتی پہلو یہ بھی ہے کہ اُس میں اعتدال نہیں ،وہ ہمیشہجذباتیدبائو میں رہتی ہے صرف اس لیئے کہ اُس کو سمجھنے میں غلطی کی جاتی ہے اُسکو آزمانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔

بڑے کہتے ہیں کہ نوجوانوں کے پاس جذباتیت کے علاوہ کچھ نہیں اِس ایک لفظ کی تکرار ہی اُن کو ہپناٹائز کر دیتی ہے پھر اُن کاجسم بھی وہی حرکات کرتا ہے جو اُن کی سوچ میں ،دماغ میں بار بار شکوہ شکایت کرکے ڈال دیا جاتا ہے ہر بات میں حکومت کی کمیشن رپورٹ کی طرح نوجوانوں سے خاموش رہنے کو کہا جاتا ہے ہم قیام پاکستان سے لیکر آج تک اس خود غرض ڈھانچے کو نہیں بدل سکے اِ س لیئے اے معصوم نسل کے نوجوانو !تم اپنے رویئے کو بدل دو اپنے آپ کو خود ہی سنبھالو کیونکہ پروفیسرز کو ذہنی مریض چاہیئے ہوتے ہیں ،ڈیبیٹرز کو واہ واہ کرنے والے بے خود ناکارہ نوجوان چاہیئیں یہاں تو کچھ دن سکون رہے تو خود ہی اپنا کوئی بہن ،بھائی ،مار دیا جاتا ہے یہاں اچھے بھلے انسان کو بیٹھے بٹھائے مریض بنا دیا جاتا ہے یہاں نعرہ ہے کہ غربت نہیں غریب کو مٹائو دنیا طاقت کا ساتھ دیتی ہے معصوم نوجوانو! سمجھ جائو اِس بات کو کہ نشہ تمہیں مکمل ناکارہ کر دے گا تم دنیا سے نہیں دنیا تم سے بنتی ہے۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک