ایک لوہار کی اور …..؟

Terrorism

Terrorism

آج کون ہے جو یہ نہیں جانتا ہے کہ ایک عرصے سے بلوچستان اور افغانستان کے راستے پاکستانی علاقوں میں کون دہشت گردی کر رہا ہے..؟ مگریہ ہم پاکستانیوں اور ہمارے حکمرانوں کا ہی ظرفِ عظیم ہے کہ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے یہاں جتنی بھی دہشت گردی ہورہی ہے اور ہمارے شہروں میں جو مسلسل حالات خراب کئے جارہے ہیں اِن سب کے پسِ پردہ ہندوستانی و اسرائیلی اور امریکی ایجنسیاں اور اِس کے ہی دہشت گردوں کی دہشت گردانہ کارروائیاں کار فرما ہیں۔

مگرنہ توہم پاکستانیوں نے ہی اِس کا دنیاکے کسی فورم پر برملااظہارکیا ہے اور اِسی طرح نہ ہی ہمارے حکمرانوں نے بھی اِس حوالے سے کبھی بھی ہندوستان کی مخالفت کی اور نہ ہی اِنہوں نے کبھی ہندوستا ن پرایسی الزام تراشی کی ہے کہہ ہندوستان ہمارے یہاں یہ کررہاہے …؟کہ وہ کررہاہے..؟ہاں سوائے اِس کے کہ ہم اور ہمارے حکمران اتناکہہ کر ضرور خاموش ہوجاتے ہیں کہ ”ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے صوبے اور شہروں میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کے پیچھے کون سی بیرونی قوت کارفرماہے، ہم جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں ہونے والی ہردہشت گردی کے پسِ پردہ کون سامُلک اور اِس کے کارندے ملوث ہیں..؟ہم وقت آنے پر سب کچھ دنیاکو بتادیںگے اور اُس مُلک کا نام دنیا کے سامنے آشکارکردیںگے کہ جو ہمارے یہاں بدامنی پھیلارہاہے ” اور بے شمارایسے جملے ہیں جو پاکستانیوں کو اپنے حکمرانوں سے اکثرسُننے کو ملتے ہیں، اور اِس موقع پر میںیہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کررہاہوں کہ آج تک ہمارے کسی بھی (سِول یا آمر)حکمران نے کبھی بھی ہندوستان کا نام کسی بھی حوالے سے نہیں لیاہے، یقینایہ ہم پاکستانیوں اور ہمارے حکمرانوں کی اعلیٰ ظرفی نہیں ہے تو پھر کہواور کیا ہے۔

جبکہ ہندوستانی حکمران اور اِس کے کرتے دھرتاؤں کا یہ عالم ہے کہ ہندوستان میں کوئی ایک پٹاخہ بھی پھٹ جاتا ہے تو ہندوستانی حکمران ، ہندوستانی آرمی چیف ،ہندوستانی عوام، ہندوستانی میڈیا اور ہندوستانی شدت پسندہندؤں سمیت سب کے سب اِس کاالزام پاکستان کے کاندھے پر ڈالتے ہوئے اِس کے سارے ڈانڈے پاکستان سے ملانے میں لگ جاتے ہیں اور اِس کام کو ہندوستانی اپنے دھرم کا فریضہ سمجھ کر ایسے اداکررہے ہوتے ہیں کہ جیسے اِن کے اِس عمل سے اِن کے دیوداتااور اِن کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے طرح طرح کے بھگوان اِن سے خوش ہوںگے،اوروہ پاکستان مخالفت کے باعث اِن کے درجات بلندکریں گے۔

آج اگرچہ ایسانہیں ہے جیساگزشتہ دِنوں وزیراعظم پاکستان نوازشریف کے بیان کو بناکر پیش کیاگیاہے جس کی تردید بھی کردی گئی ہے مگر پھر بھی اُس پر 81سالہ بونس میں چلنے والے ہندوستانی وزیراعظم من ہوہن سِنگھ نے اپنا کمز رو ساسینہ زور زورسے ٹھونک کر یہ تک کہہ دیا کہ ”میری زندگی میں پاکستان بھارت سے جنگ نہیں جیت سکتاہے دفاع ناقابلِ تسخیرہے ” بڑا مضحکہ خیز لگا ہے۔

چلو آج اگر بالفرض ہمارے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کشمیرپر بھارت کے ساتھ کسی چوتھی جنگ کی بات کہہ بھی دی ہے تو اِس پر بھارتی وزیراعظم اور بھارتی آرمی چیف اور عوام سمیت ہندوستانیوں کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے والے ہندوستانی میڈیا کو اتنابھی سیخ پا نہیں ہوناچاہئے کہ یہ سب کے سب پاجامے سے باہر ہوجائیں اور اِن کے سلگنے کی بوساری دنیا میں پھیل جائے،ہندوستانیوں کو یہ اچھی طرح معلوم ہوناچاہیئے کہ جیسی چمڑے کی زبان اِن کے 32دانتوں کو جُھل دے کرپاکستان کے بارے اکثرپھسل جاتی ہے ارے بھئی ..!اگرآج اِسی طرح وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کی بھی زبان کشمیرکے معاملے میں پھسل کر کچھ سے کچھ کہہ گئی ہے..تواَب ہندوستانیوں کو اِس پر آگ بگولہ نہیں ہوناچاہئے ،ابھی میں ہندوستانیوں سے پوچھناچاہتاہوں کہ کیوں ہندوستانیوں ٹھیک ہے نہ کہ تمہاری روزروزکی ہماری ایک دن کی بس بہت ہے۔توکیاہوگیااگروزیراعظم پاکستان نے کوئی ایسی ویسی کوئی بات کہہ دی جس کو تم بُرامان گئے اور لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو گئے ہو۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

بہرحال…!وزیراعظم میاں محمد نواز شریف چونکہ بھارت سے دوستانہ تعلقات استوارکرنے کے شدت سے خواہشمند ہیں اِس لئے اِنہوں نے فوراََ اپنے اِس بیان کی تردیدکرتی ہے کہ کہیں ہندوستانی اِن کے اِس بیان کو کسی اور زاویئے سے نہ دیکھنے لگیں اوروزیراعظم پاکستان یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی ہم سے ناراض ہوں اور ہم دنیامیں محبت اور بھائی چارگی کا درس دیتے پھیریں، قبل اِس کے کہ ہندوستانیوں کو وزیراعظم میاں نوازشریف کے کسی بیان سے کوئی غلط فہمی پیداہوتی ، وزیراعظم پاکستان کے دفترسے جاری ایک بیان میں اُس خبرکی سختی سے وضاحت کردی گئی کہ جس میں وزیراعظم میاں محمدنوازشریف سے یہ بیان منسوب کیا گیاہے کہ” مسئلہ کشمیرپر پاک بھارت جنگ چھڑسکتی ہے”جبکہ وزیراعظم آفس کے ترجمان نے وضاحتی بیان میں کہاکہ مسئلہ کشمیر پر وزیراعظم نے کہاتھا کہ اُنہوں نے اِس مسئلے کو ہمیشہ ایک اہم ذمہ داری سمجھاہے اور یہ مسئلہ کشمیریوں کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوناچاہئے ” پاکستان کے وزیراعظم کے دفترسے جاری وضاحت کے باوجود بھی ہندوستانیوں کا پاکستان پر غصے اور اِن کے دلوں میں پائے جانے والے بغض و کینہ اور اِن کے دماغوں میں بھرے خناس کا یہ عالم ہے کہ اُنہوں نے اپنے غصے اور بغض وکینہ کا اظہار کچھ اِس طرح کیا کہ آج اِس پرہر پاکستانی حیران ہوکررہ گیا ہے۔

ٍ جبکہ اُدھرگزشتہ دِنوں وزیراعظم نوازشریف کے بیان کو جواز بناکر 81سالہ بونس میں گِن گِن کر اپنی سانسیں لینے والے ضعیف ہندوستانی وزیراعظم من ہوہن سِنکھ نے ہندوستانی بحریہ کے قومی دن کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے زورزورسے اپناکمزورسینہ پیٹااور آبے سے باہرہوتے ہوئے کہا کہ جب تک میں زندہ ہوںپاکستان بھارت کے خلاف جنگ کبھی نہیں جیت سکتا بھارت کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے ”اور بہت سے ایسے جذباتی جملے کہے کہ جس سے ہندوستانیوں کو یہ یقین ہوگیاہوگاکہ چلوجب تک من ہوہن جی زندہ نہیں پاکستان بھارت کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا ہے ” مگراَب ہندوستانی یہ ضرورسوچ رہے ہیں کہ جب من موہن جی زندھ ہیں تو تب تک پاکستان کچھ نہیں کرے گامگر جب یہ مرگئے تو پھر تو پاکستان بھارت سے جنگ ضرورجیت جائے گا، اَب تب سے ہندوستانی اِس فکر میں دبلے ہوئے جارہے ہیں کہ آج موہن جی اِن کے درمیان ہیں تو کچھ نہیں ہوگامگر جب اِن کی آرتھی اُٹھ گئی تو پھر اِس کے بعد بھارت کا کیا بنے گا..؟اِس پر میں ہندوستانیوں کو ایک پتے کی بات بتاؤاور یہ بات سچ بھی ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم من موہن جی نے اتنی بڑی بات کیوں اور کس لئے کہہ دی ہے ،تو ہندوستانیوں اپنے کلیجے تھام کر سُنو…!دنیاکے کسی بھی مقام پر جب کبھی بھی موجودہ ہندوستانی وزیراعظم من موہن سنگھ جی کی کسی بھی پاکستانی وزیراعظم یاکسی بھی اہم حکومت رُکن سے ملاقاتیں ہوئیں اِن ملاقاتوں میں ہندوستانی وزیراعظم نے بس اپنی ایک ہی خواہش کااظہار کیا اور خواہش یہ تھی کہ بھگوان کے واسطے پاکستانیوں کم ازکم میری زندگی میں تو ہندوستان سے جنگ مت کرناتم میری اِس خواہش کا احترام کرواِدھرہندوستانیوں کو میں ٹھنڈاکئے رکھوں گا” اور آج ہندوستانی وزیراعظم اپنے عوام کے دلوں میں جگہہ بنانے کے لئے ایسی باتیں کررہے ہیں حالانکہ یہ ایسی باتیں پہلے پاکستانیوں سے کرچکے ہیں کہ میری لاج رکھوہندوستان سے میری زندگی میں جنگ مت کرناکیوں کہ مجھے یقین ہے کہ اگرجنگ ہوگئی تو یہ جنگ پاکستان ہی جیتے گا۔

آج جس انداز سے ہندوستانی وزیراعظم من موہن سنگھ نے یہ بات کہی ہے کہ ” اِن کی زندگی میں یہ نہیں ہوسکتاتو وہ نہیں ہوسکتا”تو اِس موقع پر مجھے ہندوستانی وزیراعظم کی ہی عمرکی اپنی81سالہ وہ دادی یادآگئیں جو بیشترمواقعوں پر من موہن سنگھ کی طرح کہاکرتیں تھیں کہ” میری زندگی میں یہ نہیں ہوسکتاتووہ نہیں ہوسکتا”اِسے ہم اِن کی عمر کا تقاضہ جن کر خاموش ہوجاکرتے تھے کہ چلویاردادی کی تو یہ عادت ہے یہ یوں ہی کہتی رہتی ہیں مگر ہم اِن کے کہے کو ایک کان سے سُنتے اور دوسرے سے نکال دیتے تھے اور اپناہر وہ کام اور اپنا سار امِشن پورا کر لیا کرتے تھے جو ان کی خواہش کے برخلاف ہوتا تھا اور وہ تلملاکر رہ جاتیں تھیں مگرایک دن ایساہواکہ دادی کی صبح آنکھ ہی نہ کھلی اور وہ انتقال کرگئیں ، آج مجھے ایسالگ رہاہے کہ کہیں کسی دن ہندوستانی وزیراعظم من موہن جی کا بھی حشرہماری دادی جیسا نہ ہوجائے اور اِن کی خواہش بھی اِن ہی کے ساتھ کہیں دنیا سے نہ رخصت ہوجائے اور جنگ ہوکراُس میں جیت پاکستان کی ہو جائے۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com