اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے اوگرا کیس کا فیصلہ سنا دیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سبسڈی ختم نہیں کی جا سکتی، آرٹیکل تیس کے تحت لوگوں کی فلاح حکومت کی ذمہ داری ہے۔
لوڈ شیڈنگ کا معاملہ مخلصانہ کوششوں سے حل ہو سکتا ہے، عوام کو بلا تعطل بجلی فراہم کی جائے اگر لوڈ شیڈنگ ناگزیر ہے تو یکساں لوڈشیڈنگ کی جائے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بنچ نے لوڈ شیڈنگ اور پٹرولیم مصنوعات سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سبسڈی ختم نہیں کی جا سکتی۔
آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت لوگوں کی فلاح حکومت کی ذمہ داری ہے، لوڈ شیڈنگ کا معاملہ مخلصانہ کوششوں سے حل ہو سکتا ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مجاز اتھارٹی لوگوں کی مشکلات ختم کرے اور عوام کو بلا تعطل بجلی فراہم کی جائے، اگر لوڈ شیڈنگ ناگزیر ہے تو یکساں لوڈ شیڈنگ کی جائے، مجاز اتھارٹی بجلی کا ضیاع روکنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرے، اس مقصد کے لئے اسمارٹ میٹر متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ فیصلے میں بل نہ دینے والوں کے خلاف قانون کے تحت کاروائی کا حکم دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں یکطرفہ انداز میں مقرر کی جا رہی ہیں، عالمی مارکیٹ کے مطابق نرخ مقرر کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ نیپرا اور پیپکو ہائیڈل بجلی کو ترجیح دیں، تھرمل بجلی کی پیداوار میں گیس اور کوئلے کو ترجیح دی جائے، عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھاد فیکٹریوں کو گیس کی فراہمی جاری رکھی جائے۔
صارفین کو کھاد بھی رعایتی نرخوں پر ملنی چاہئے، عدالت نے کہا ہے سی این جی پر اضافی 9 فیصد سیلز ٹیکس قانون کے منافی ہے، متعدد سی این جی سٹیشن کے لائسنس بظاہر غیر قانونی طریقے سے جاری کیے گئے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سی این جی اسٹیشنز کے لائسنس کا معاملہ اوگرا عمل درآمد کیس کے ساتھ سنا جائے گا۔