محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان

Social Media

Social Media

قارئین کرام! آجکل کے ترقی یافتہ دور میں کہیں سے بھی کوئی بھی معلومات فوراً پہنچنا مشکل نہیں، سوشل میڈیا نے تو اور بھی آسانی کر دی۔ میں ایسے ہی کچھ اسلامی خطابات سُن رہا تھا تو ایک ہندو پنڈت کی ویڈیو ریکارڈنگ نظر سے گزری جس نے ایمان تازہ کر دیا۔ سو اُن پنڈٹ صاحب کا ہندو مجمعے سے خطاب اُنکے الفاظ یہاں تحریر کر رہا ہوں۔ میں اپنے ایک مسلم دوست سے ملنے جا رہا تھا۔ میں جب گیا تو راستے میں ایک مسجد پڑتی ہے اوپر چھجے پر ایک مسلم سجن کلی کر رہے تھے جب نزدیک گیا تو انہوں نے کلی کرنا روک دیا ،میں سمجھا کہ شاید میرے گزرنے کیلئے روک گئے ہو!گر میں جیسے ہی قریب سے گزرا انہوں نے میرے اوپر کلی کردی جس میں پان کی پیک کی آمیزش بھی تھی اور میرے کپڑے خراب ہوگئے۔

میں جب اکرام حسین کے گھر پہنچا انہوں نے دیکھا تو بولا! تیری پاٹھی جی یہ کیسے ہو گیا؟۔ تو ہم نے سارا ماجرا سناادیا انہوں نے کہا آپ نے کچھ کہا نہیں میں نے کہا بھائی مار تھوڑی کھانی تھی پھر اکرام حسین صاحب نے خود میری قمیض دھوئی۔ تو کہنے کا مطلب کہ ایک محمدۖ جو اپنے اوپر کوڑا پھینکنے والی کا حال احوال دریافت کرتے اور ایک یہ سجن ہیں جو ایسے کام کرتے ہیںکہ میں غیر مسلم ہوں تو میرے اوپر کلی کردی تو ایسے نادان لوگوں کو معاف کردینا چاہیے کیونکہ پہلے میں سمجھا تھا کہ یہی اسلام ہے ۔میں نے ایسے لوگوں کے اخلاق کی وجہ سے ہسٹری آف اسلامک ٹیررز ازم لکھی تھی۔ لیکن جب میں نے اسلام کو جانا محمدۖ کو جانا قرآن کو جانا ، حدیثوں کو پڑھا تو مجھے رحم آیا اُسسجن پر کہ مسلمان ہیپر اسلام کو نہیں جانتا۔

تو کہنے کا مطلب ہے اس طرح کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اخلاق کے برعکس کام کرتے ہیں ۔میرا ماننا ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے حساب سے دنیا چلے تو ساری دنیا میں چین سکون ہو جائے اس سے بڑھ کر انسانیت دوست مذہب کوئی نہیںاور اس سے بڑھ کر اعلیٰ اخلاقی اوصاف کسی مذہب میں نہیں ۔ ایک اور بات اپنے ہندو بھائیوں کو بتاتا چلو! ایک شخص نے کہا کہ اے االلہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دشمنوں کیلئے بددعا کیجئے۔ تو آپۖ نے کہا مجھے اللہ نے کسی پر بددعا کیلئے نہیں بلکہ رحمت کیلئے بھیجا ہے۔،قرآن مجید میں اللہ کا حکم موجود ہے قرآن کی سورہ اکیس آیات نمبر 107 میں درج ہے۔ ” اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے تم کو ساری دنیا کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ”۔صرف مسلمانوں کیلئے نہیں یعنی ساری دنیا کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کو اپنے اندر اتار چکے تھے اُسی کے حساب سے چلتے تھے۔

Prophet Muhammad (P.B.U.H)

Prophet Muhammad (P.B.U.H)

ایک اور واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو چاہیے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔تو لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میرا بھائی مظلوم ہے تو ہم ااُس کی مدد کرنا جانتے ہیں لیکن اگر و ہ ظالم ہو جائیتواُس کی مدد کیسے کی جائے ؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اُس کے ہاتھ پکڑلو یعنی اُس کو ظلم کرنے سے روک لو اور اُس کو دوزخ کی آگ سے بچا لو۔ یہ ہیں محمدۖ کی تعلیمات۔ آپۖ نے ایک بار فرمایا جو میں اپنے میڈیا کے بھائیوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں جو اس مجمع میں موجود ہیں کہ وہ یہ پیغام ساری دنیا کو بتائیں ، اسلام کو دہشتگردی سے جوڑنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکلے گا۔ اسلام واحد مذہب ہے جس نے سب سے زیادہ ظلم سہا۔ جس مذہب کے پیغمبر محمد ۖنے سب سے زیادہ ظلم سہے اور آخری لمحے تک ظلم کے خلاف لڑتے رہے۔آپۖ نے کبھی کسی بھی طریقے سے کسی انسان کا دل نہیں دکھایا کبھی کسی انسان سے سختی سے بات نہیں کی، آپ ایسے مذہب کو دہشتگردی سے کیسے جوڑ سکتے ہیں ؟۔یہ پوری دنیا میں اسلام کے خلاف سازش ہے یہ سازش اس لئے ہو رہی ہے کیونکہکہیں اسلام پھیل نہ جائے اور لوگ اس مذہب کی سچائی نہ جان جائیں۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس طریقے کی سازش کی جڑ ہندوستان میں نہیں کہیں اور موجود ہے ہندوستان میں اگر سازش ہوتی ہے تو وہ صرف سیاسی سازش ہوتی ہے وہ اپنی سیاست کیلئے لوگوں کو دو دھڑوں میں تقسیم کرتے ہیں لیکن ہندوستان میں اسلام کیخلاف سازش نہیں ہوتی یہ ہندئووں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ کون کس کو کس لئے استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ ایک بار اللہ کے رسولۖ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ برا ہمیشہ لڑائی جھگڑا کرنیوالا آدمی ہے ۔یعنی جو ہر وقت لڑائی کرے وہ سب سے برا ہے۔پڑوسی کیلئے لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان خراب ہیں مگر مسلمانوں کیلئے پڑوسی کے حقوق بارے جو درج ہے اُس کی مثال کسی مذہب میں نہیں ملتی ۔اور تین دفعہ آپ ۖ نے اپنی بات دہرائی کہ اللہ کی قسم وہ مسلمان نہیں ۔ آپۖ سے پوچھا گیا کون مسلمان نہیں ؟۔ آپۖ نے فرمایا وہ جس سے اُس کا پڑوسی پریشان ہوں۔

آپۖ نے پڑوسی کیلئے یہ الفاظ ادا کئے ۔ایسا مسلمان کیسے دہشتگرد ہوسکتا ہے؟۔ ایسا مسلمان کیسے کسی پر ظلم کرسکتا ہے ؟۔ایک جگہ آپ ۖسے پوچھا گیا کہ کون سے فعل اسلام میںسب سے اچھا ہے۔ اگر مجھ سے پوچھا جاتا تو میں بہت لمبا چوڑا بیان دیتا اور بڑی فلاسفی بیان کرتا۔ مگر آپۖ نے انسانیت کی سب سے بڑی مثال صرف چھوٹے سے بیان میں دے دی ۔سب سے افضل فعل وہ ہے جو کسی بھوکے کو کھانا کھلائے اور وہ جو کسی جانے انجانے کو سلام کہے۔اس سے بڑا انسانیت کا درس اور کہاں مل سکتا ہے۔

پہلے میں خود کہتا تھا کہ مسلمان کیلئے انسان وہ ہی ہے جو مسلمان ہے باقی سب کو وہ انسان نہیں سمجھتے لیکن یہ میری غلط فہمی تھی کیونکہ میں اسلام کوجانتا نہیں تھا۔ معاف کیجئے میں یہ جو کچھ کہہ رہا ہوںاور جس اسلام کی بات کر رہا ہوں وہ صرف اسلام کیلئے کہہ رہا ہوں کیونکہ بڑائی اسلام کی ہے مسلمان کی نہیں کچھ مسلمانوں کے رویے اس کے برعکس ہیں۔مگر ایسی بھی بات نہیں کہ اسلام میں مسلمان اچھے نہیں بہت اچھے ہیں اور ایک سے ایک اچھے ہیں اور انہی اچھے مسلمانوں کی وجہ سے اسلام قائم و دائم ہے۔

یہ ہمارے مذہب کے بارے میں ایک ہندو پنڈت کے الفاظ ہیں ۔اگر ریسرچ کی جائے اور کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو ایسیلاتعداد غیر مسلم لوگ ہیںہمارے مذہب کی سچائی کا اعتراف کرتے ہیں ،اور درس انسانیت کی رہنمائی ہمارے ہی مذہب سے سیکھتے ہیں ۔مگر ہائے صد افسوس کہ ہم نے یہ سب پس پشت ڈال دیا۔ اس پنڈت کی بات درست ہے کہ ہم مسلمان ہیں مگر ہمارے اندر اسلام نہیں۔

کیونکہ ہمارے نبیۖ کی سیرت پر عمل کرنا اور اُسکو اپنانا ہی مکمل اسلام ہے۔ہم آپس میں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں ایکدوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں ایک دوسرے پر خودکش حملے کر رہے ہیں۔واقعی یہ اسلام نہیں ۔اسلامی کی تعریف تو اس پنڈت نے ہم سے بہتر انداز میں بیان کی۔ہمیںبحیثیت مسلمان خود اپنے اندر جھانکنا ہوگا،کہ کیا ہمنبی ۖ کے اسلام میں پورے داخل ہوچکے ،؟جس دن ہم اسلام میں پورے کہ پورے داخل ہوگئے اُسی دن ہمارے تمام مسائل ختم ہوجائیں گے۔اللہ مجھے اور آپ کومکمل طور پر اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Amjad Ashraf

Amjad Ashraf

تحریر : امجد قریشی