کوئی ہے جو ہمارے رہبر محترم عمران خاں صاحب کی انوکھی، لا ثانی اور لا فانی سیاست کا مقابلہ کر سکے؟۔ اُنہوں نے جب سے میدانِ سیاست میں قدم رنجہ فرمایا ہے، وہ تاریخ پہ تاریخ رقم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم نے بہت سے جلسے جلوس بھی دیکھے اور جماعت اسلامی کے دھرنے بھی لیکن جو انوکھا اور نرالاپن ہمیں تحریکِ انصاف کے ہاں ملتا ہے اُس کی نظیر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔
جب تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی نے خیبر پختونخواہ کے وزیرِ اعلیٰ ، وزراء اور ا راکینِ اسمبلی کے ہمراہ 5 دسمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے کی ٹھانی تب سبھی عقیل و فہیم سَر جوڑ کر بیٹھے اور” ایجنڈا ”صرف ایک تھا کہ کچھ ایسا کیا جائے جس کی نظیر اقوامِ عالم میں بھی کہیں نہ ملتی ہو۔ دھرنے کا طریقِ کار طے ہوا جسے اتنا خفیہ رکھا گیا کہ تیز و طرارپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔5 دسمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد سے آدھا کلو میٹر دور کنٹینر لگا کر سڑک کو دونوں طرف سے بند کر دیا گیا ، انتہائی خوبصورت شامیانوں کے نیچے ”ریڈ کارپٹ” بچھائے گئے اورسٹیج ایسے تیار کیا گیا جیسے وہاں کسی ”دُلہا میاں ” نے بیٹھنا ہو ۔اطراف میں قطار اندر قطار لگی قیمتی اور آرام دہ کرسیاںعجب بہار دکھا رہی تھیں ۔شاید اتنی خوبصورت اور قیمتی کرسیاں اِس لیے رکھی گئی ہوں کہ اُن پر قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین نے بیٹھنا تھاجن سے کم از کم یہ توقع تو ہر گز نہیں کی جا سکتی کہ وہ جاتے سمے کرسیاں بھی ا ٹھا کر لے جائیں گے ۔محترم عمران خاں صاحب اپنی ”سونامی ”کے ہمراہ سٹیج پر جلوہ افروز ہوئے اور یوں تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کے”ریڈ کارپیٹڈ” دھرنے کا ایسا آغاز ہوا جس نے ایسی تاریخ رقم کی جس کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔
دھرنے سے محترم عمران خاں صاحب نے خطاب فرمایا آجکل دو ”مقرر” ہی ایسے ہیں جو ہمیں بہت پسند ہیں ، ایک عمران خاں اور دوسرے بلاول زرداری ۔رانا ثنا اللہ صاحب کو کسی جلسے سے خطاب کرتے دیکھنے کا تو کبھی اتفاق نہیں ہوا لیکن اپنی مختصر گفتگو کے دوران بھی ”تیلی” لگانے میں اُن کا کوئی ثانی نہیں ۔رانا صاحب میں اعتماد اتنا کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ہی نہیں ، پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ بھی اُنہی کے پاس ہو ۔ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا جسے پنجابی میں ”پنگا لینا” کہتے ہیں ، رانا صاحب کا محبوب مشغلہ ہے لیکن ہمیں کیا ، یہ نواز لیگ اور رانا ثنا اللہ کا ذاتی معاملہ ہے اور ہمیں تانک جھانک کی عادت نہیں ۔رانا صاحب کی اِن ”مجنونانہ حرکتوں ” کا جواب بھی نواز لیگ کو ہی دینا پڑ رہا ہے اور پڑتا رہے گا ۔بلاول زرداری اپنی ”یورپی ” تعلیم مکمل کرنے کے بعد ”پاکستانی ”سیاسی سکول میں داخل ہو گئے ہیں اور ”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” کے مصداق آجکل سیاسی الف ،بے رَٹ رہے ہیں ، لہجہ البتہ انگریزوں والا ہی ہے اور یہ تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ٹویٹر پر جاری ہونے والے اُن کے پیغامات کوئی گھاگ سیاسی ”پپلیا”ہی جاری کرتا ہے ، بلاول زرداری نہیں ۔لیکن ”مشتری ہوشیار باش ” بلاول زرداری کی رگوںمیں محترمہ بینظیر شہید کی سیاست اور جنابِ آصف زرداری کی شاطرانہ چالوں سے بھرپور خون دَوڑ رہا ہے جوکسی نہ کسی طرح ضرور رنگ لائے گا ، فی الحال تو اُن کی تقریر سُن کر ہنسی ہی آتی ہے۔
NATO Supply
محترم عمران خاں کا خطاب سُن کر تو بندہ ”خواہ مخواہ ” جذباتی ہو جاتا ہے۔وہ بات ہی ایسی کرتے ہیں جو ہم سونامیوں کے دل میں ”ٹھاہ” کرکے لگتی اور تیر کی طرح پیوست ہو جاتی ہے ۔اُنہوں نے دھرنے کے دوران خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مرکزی حکومت نے خیبر پختونخواہ کی حکومت گرانے کی کوشش کی تو ہم اُن کی حکومت گرا دیں گے ۔رانا ثنا اللہ ٹائپ کچھ’ ‘ لیگیئے” کہتے ہیں کہ ہم نے توخود تحریکِ انصاف کو خیبر پختونخواہ کی حکومت بھیک میں دی ہے اور ایسا کرتے ہوئے عزیز از جاں مولانا فضل الرحمٰن کو بھی ناراض کر دیا ۔ہم بھلا خاں صاحب کی حکومت کو گرانے کی کوشش کیوں کریں گے ؟۔ہم نے تو طے کر رکھا ہے کہ اگر خاں صاحب کی گرتی حکومت کو سنبھالا دینے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہم فوراََ اپنی خدمات پیش کر دیں گے ۔ لیکن ہم ”سونامیے” خوب جانتے ہیں کہ نواز لیگ نے اگر ایسا کیا تو وہ”حبِ عمران خاں” میںتو ہر گز نہیں ہو گا کیونکہ اُن سے خیر کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت بسانے کے مترادف ہے ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کو خیبر پختونخواہ کی حکومت وہاں کے بگڑے حالات کو مدِ نظر رکھ کر دی گئی تاکہ تحریکِ انصاف سے حکومت سنبھل نہ پائے اور وہ ”رَج کے” رُسوا ہو جائیں لیکن ہماری حکومت نہ صرف چل بلکہ دَوڑ رہی ہے ۔اگر کسی کو یقین نہ آئے تو ہماری نیٹو کنٹینروں کے پیچھے لگتی دَوڑیں دیکھ لے۔
کچھ بَد بخت یہ کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے بقدرِ اشکِ بُلبُل اراکین کے ساتھ عمران خاں دو تہائی اکثریت کی مالک نواز لیگ کی حکومت کو کیسے گرا سکتے ہیں ؟۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خاں صاحب نے پیپلز پارٹی سے بنا کر رکھی ، نہ ایم۔کیو۔ایم اور اے۔این۔پی سے ۔مولانا فضل الر حمٰن کا پارہ تحریکِ انصاف کا نام سنتے ہی صرف چڑھ ہی نہیں جاتا بلکہ اُن کے ”ذہنی تھرما میٹر” کو توڑ کر باہر اُبل پڑتا ہے ۔وہ تو ہر وقت پوری تحریکِ انصاف کو کچا چبا جانے کے موڈ میں نظر آتے ہیں ۔ آفتاب احمد خاں شیر پاؤ سے بھی خاں صاحب دامن چھڑا چکے ہیں ۔صرف ایک جماعت اسلامی ہی بچی ہے جو ”فی الحال” ساتھ نبھاتی چلی جا رہی ہے لیکن پارلیمنٹ میں اُن کے اراکین کی تعداد اتنی ہے کہ ڈھونڈنے کے لیے بھی دو ، چار گھنٹے تو درکار ہونگے ہی۔پھر کس برتے پر خاں صاحب نے یہ کہا کہ وہ مرکزی حکومت کو گرا دیں گے ؟۔اِن افلاطونوں کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ حکومت گرانے کے لیے عددی اکثریت نہیں ، ہمت و حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے کپتان میں بدرجہ اتم موجودہے ۔ویسے بھی حکومت گرانے والے دھرنوں کی ”سپیشلسٹ” جماعت اسلامی سونامیوں کے اُبلتے خون کے ساتھ ہے اور اب تو ہمارے مُرشد شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کی بھی پاکستان آمد آمد ہے۔
اَس لیے نواز لیگ کی حکومت گرانا تو کوئی مسلہ ہی نہیں ۔۔۔ بھئی ہم نے تو امریکہ کی دَوڑیں لگوا دیں اور اُس نے عرقِ ندامت سے تَر پیشانی کے ساتھ کہہ دیا کہ وہ خیبر پختونخواہ کے راستے جاری نیٹو سپلائی کو روک رہا ہے ،پھر یہ نواز لیگ کس کھیت کی مولی گاجر ہے۔
جیسے ہم نے نیٹو سپلائی روکی ہے ، ویسے ہی ڈرون حملے بھی روک کر دکھائیں گے لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ مرکزی حکومت تحریکِ انصاف کے پاس ہو اور عمران خاں صاحب وزیرِ اعظم۔اگر قوم اِس ملک کا بھلا چاہتی ہے تو اُسے ایک نہ ایک دن ہم سونامیوں کے ساتھ مل کر کپتان صاحب کو وزیرِ اعظم بنانا ہی ہو گا کیونکہ اِس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔مشہور محاورہ ہے کہ ”آج کا کام کل پر مت چھوڑو ” اِس لیے کیوں نہ ہم آج ہی خاں صاحب کو وزیرِ اعظم بنانے کے لیے نکل پڑیں۔