جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا جن کو احتراماً مادیبا کہا جاتا تھا 95 برس کی عمر میں انتقال کر گئے وہ پھیپڑوں میں انفیکشن کی وجہ سے طویل عرصے سے زیر علاج تھے گذشتہ دو برسوں میں منڈیلا پانچ بار ہسپتال گئے اپریل میں انھیں نمونیا کی وجہ سے دس دن ہسپتال میں رہنا پڑا۔ نیلسن منڈیلا نسلی امتیاز کے خلاف طویل جدوجہد کے بعد جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے تھے۔
تھیمبو قیبلے کے سربراہ کے بیٹے رولھلاہلا منڈیلا 18 جولائی 1918 کو جنوبی افریقہ کی مشرقی راس میں مویزو نامی گاؤں میں پیدا ہوئے وہ اپنے خاندان میں سکول جانے والے پہلے شخص تھے ان کے ایک استاد نے ان کے نام کا تلفظ صحیح ادا نہ کر پانے پر انہیں نیلسن کہنا شروع کیا وہ 1941 میں شادی سے بچنے کے لیے جوہانسبرگ چلے گئے اور وہاں والٹر سیسولو کی قانونی فرم میں کام کرنے لگے وہیں انہوں نے ابتدائی سیاست کا آغاز کیا اور افریقی نیشنل کانگریس میں شامل ہو گئے اور پارٹی کے نوجوانوں کے شعبے یوتھ لیگ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا 1952 میں منڈیلا نے وکالت کا امتحان پاس کیا اور اولیور ٹامبو کے ساتھ مل کر ملک کی پہلی سیاہ فام قانونی فرم قائم کی جس کا مقصد ان افراد کو قانونی مدد فراہم کرنا تھا جن کی دادرسی کوئی نہیں کرتا تھا۔ نسلی حکومت کی جانب سے پابندی لگنے کے خطرے کو دیکھتے ہوئے اے این سی نے منڈیلا کو چھپ کر کام کرنے کے راستے تلاش کرنے کو کہا انہیں 1956 میں 155 دیگر لوگوں کے ساتھ غداری کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا چار سال جاری رہنے والی عدالتی کارروائی کے بعد ان کے خلاف الزامات واپس لے لیے گئے 1958 میں منڈیلا نے ونی مادی کنزیلا سے شادی کی۔
South Africa
دنیا نے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف ان پابندیوں میں سختی لانا شروع کی جو 1967 میں عائد کی گئی تھیں اس دباؤ نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا، حتیٰ کہ 1990 میں صدر ڈی کلارک نے اے این سی پر عائد پابندی ہٹا لی۔ گیارہ فروری 1990 کو 27 سال جیل میں رہنے کے بعد منڈیلا کو رہا کر دیا گیا وہ اپنے حامیوں کے نعروں کے درمیان اپنی اہلیہ کے ساتھ باہر نکلے اگلے سال اے این سی کے پہلے قومی اجلاس میں منڈیلا کو پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا ملک میں کثیر النسلی جمہوریت کے قیام کی سمت میں مذاکرات شروع ہو گئے1993 میں منڈیلا اور جنوبی افریقی صدر ایف ڈبلیو ڈی کلارک کو مشترکہ طور پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا یہ انعام انھیں جنوبی افریقہ میں استحکام لانے کی کوششوں کے لیے دیا گیا تھا ایوارڈ قبول کرتے ہوئے منڈیلا نے کہا کہ اپنی دنیا میں نئے آغاز کے لیے جو کچھ کرنا پڑا ہم کریں گے 1994ء میں جنوبی افریقہ کی تاریخ میں پہلی بار تمام نسلوں نے جمہوری انتخابات میں ووٹ دیا منڈیلا بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوئے منتخب ہونے کے بعد دس مئی 1994 کو منڈیلا نے کہا: ‘آزادی کا دور قائم رہے ۔ خدا افریقہ کا خیال رکھے۔
منڈیلا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ غریبوں کے لیے مکانوں کی کمی تھا۔ تھابو ایمبیکی حکومت کا روزمرہ کا کام دیکھتے رہے جس سے منڈیلا کو دنیا بھر میں جنوبی افریقہ کی تشہیر کا موقع ملا۔اپنی رہائی کی پانچویں سالگرہ پر نیلسن منڈیلا فروری 1995 میں جزیرہ رابن گئے جہاں وہ 18 برس قید رہے تھے اس جیل میں قید رہنے والے دیگر افراد بھی اس دورے میں ان کے ہمراہ تھے ۔ نیلسن منڈیلا کے پھیپھڑوں کو اسی جیل میں مشقت کے دوران نقصان پہنچا تھا تھابو ایمبیکی نے منڈیلا سے اے این سی کی صدارت حاصل کی اور 1999 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی بھی پائی۔
منڈیلا نے اپنی 80 ویں سالگرہ پر موزمبیق کے سابق صدر کی بیوہ گراسا مشیل سے شادی کر لی۔ اسی دوران منڈیلا کینسر سے متاثر ہوئے اور ان کا علاج شروع ہوا۔ 2004 میں انہوں نے عوامی زندگی سے ریٹائرمنٹ لے لی اور اکثر مواقع پرصحافیوں سے مذاق کرتے ہوئے منڈیلا نے کہا،’میری اپیل ہے کہ آپ مجھے فون نہ کریں، میں آپ کو فون کروں گا۔2008 میں منڈیلا کی 90ویں سالگرہ منانے کے لیے لندن کے ہائیڈ پارک میں موسیقار، فلمی ستارے اور سیاستدان جمع ہوئے تو اس موقع پر مجمع سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ‘وقت آ گیا ہے کہ توانا بازو بوجھ اٹھائیں یہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے کہ اپنے ملک کو وقار کے ساتھ دنیا میں آگے لیکر جائیں۔
کیا ایسے حکمران پاکستان میں بھی پیدا ہوسکیں گے جو اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے سوچیں نہ کہ عوام کے ووٹوں سے جیت کر عوام کے ہی دشمن بن جائیں آج چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری اپنی ملازمت کا آخری دن گذار رہے ہیں کل سے وہ بھی آزاد ہونگے مگر پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے انکی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔