آج کے معاشرے میں عورت کی بے توقیری دیکھتا ہوں تو دور جہالت کے بدصورت رسم ورواج تصویروں کی صورت آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتے ہیں، مجھے احساس دلاتے ہیں کہ تُو بھی کسی مہذب معاشرے کا فرد نہیں بلکہ دور جہالت سے ملتے جلتے دور میں پیدا ہوا ہے۔ جس نسل کی ماں ظلم زیادتی، نا انصافی کا شکار ہو وہ کس طرح پرامن، باشعور اور باعزت معاشرہ قائم کر سکتی ہے۔ جو لوگ اپنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کو عزت و انصاف نہیں دے سکتے وہ کیونکر دنیا میں باعزت زندگی بسر کرنے کے حقدار ہو سکتے ہیں۔
غلام، بے توقیر اور ظلم کی چکی میں پسی ماں کس طرح بچوں کو خوددار، خود مختار، ایماندار اور باشعور بنا سکتی ہے؟جس معاشرے میں ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی کوئی عزت نہیں اُس معاشرے کے افراد کی دنیا کیا عزت کرے گی ؟جن کی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو اپنے بیٹے، باپ، بھائی، شوہر یا گھر پر کوئی حق نہیں وہ کس منہ سے دنیا سے اپنے یا انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں؟افسوس کہ اسلامی معاشرے کو غیر مذہب رسم ورواج نے یرغمال بنا کر ہمیں مفلوج کرکے ہمیں حقائق سے دور تر کر دیا ہے۔
اسلام سے پہلے معاشرے میں بھی عورتوں کی کوئی عزت اور قدر و منزلت نہ تھی۔ وہ ظلم و ستم کا شکار تھی۔ حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ مکہ میں عورتوں کو بالکل ناقابل توجہ سمجھا جاتا تھا، مدینہ میں نسبتا عورتوں کی قدر تھی لیکن اس قدر نہیں جس کی وہ مستحق تھیں۔ رسول اللہ نے حکم خُدا وندی کے تحت عورت کو عزت و احترام کا وہ مقام بخشا جس کی تاریخ انسانی میں مثال نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی کریم نے عورت کے حقوق و فرائض کا تعین فرمایا اور اسے ماں، بیٹی، بہن اور بیوی سمیت تمام رشتوں سے عزت عطا فرمائی۔
Allah
ارشاد نبوی ہے ”تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں جو(اپنی)بیویوں سے بہتر سلوک کریں اور میں اپنی بیویوں سے بہترین سلوک کرتا ہوں”خطبہ حجتہ الوداع میں بھی عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔آپۖ نے مسلمانوں کواس خطبہ کے ذریعے خواتین کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے پابند کر دیا کہ ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آئو،آپۖ نے فرمایا مردوں کایہ مقام نہیں کہ وہ عورتوں کو بھیڑ بکری سمجھیں بلکہ سارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کے تحت ہونا چاہئے اور انہیں ان کا جائز مقام ملنا چاہئے۔
افسوس آج مسلمان معاشرہ بھی ہندو و دیگر غیر مسلم معاشروں کے رسم ورواج اپنا چکا ہے جن میں عورتوں کو نہ تو عزت دی جاتی ہے اور نہ انسان سمجھا جاتا ہے۔ آج عورت پر ہر طرح سے ظلم وستم ہورہے ہیں ْوہ ماں بھی ہے، بہن بھی، بیٹی بھی اور بیوی بھی، ہمیں اُس کی ضرورت بھی بہت ہے لیکن اُس کی عزت کرنا ہمارے لئے باعث شرم بنتا جارہا ہے۔ عام طور پر جب کوئی مرد اپنے گھرمیں جھاڑو دیتا ہے، برتن، کپڑے دھوتا، فرش صاف کرتا یا پھر بچوں کو واش روم لے کے جاتا ہے تو معاشرہ اُس کا مذاق اُڑاتا ہے لیکن جب یہی مرد لمبے بال رکھتا ہے، ریشمی کپڑے پہنتا ہے یا عورتوں سے زیادہ فیشن کرتا ہے ،جب عورتیں کام کرنے کیلئے کارخانوں کا رخ کرتی ہیں تب اسی مرد کی مردانگی پر معاشرہ کوئی فتویٰ نہیں دیتا۔آخر عورت بھی انسان ہے وہ سارادن گھر،بچوں، مردکے رشتہ داروں اور مہمانوں کی خاطر داری سمیت کئی دیگر کام کرنے کے بعد رات کو مرد کا بھی خیال رکھتی ہے۔ جب یہی عورت گھر سے باہر کمانے نکلتی ہے اسے اس قدر ملامت نہیں کیا جاتا جس قدر ایک مرد کو برتن یاکپڑے دھونے پر کیا جاتا ہے۔
مرد چھٹی والے دن بھی اپنے دوستوں اور دوسیتوں کے ساتھ وقت گزار سکتا ہے یعنی مرد کو کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ کس کس سے ملتا ہے کیا کیا کرتا ہے، وہ کسی بھی وقت کہیں بھی آ جا سکتا ہے لیکن عورت صرف کپڑے، برتن، فرش دھو سکتی ہے، کھانا پکا سکتی ہے ،مرد کے خاندان والوں کی فرمانبرداری کرسکتی ہے یہ سب کام کرنے کے بعد بھی اگر اُونچابولے گی تووہ اچھی عورت نہیں بلکہ بدسیرت ہو جائے گی۔ وہی مرد جو گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتا وہ سارا دن دفتر میں برتن بھی دھوتا ہے اور فرش بھی، چائے بھی بناتا ہے اور کھانابھی گرم کرتا ہے اگر باس کے بچے دفتر آجائیں تو اُن کی نیپی بھی تبدیل کرتا ہے۔
یہ تمام کام کرتے وقت شرم کی بجائے فخر محسوس کرنے والا مرد ساری مردانگی گھر کی چاردیواری میں قید ایک عورت پر نکالتا ہے کیا اپنی بیوی دفتر کے باس کے مقابلہ میں بہت کمتر ہے؟عورتوں کی طرح لمبے بال رکھے، سرخی ،پوڈر اور کاجل لگائے والدین کو بیٹا خوبصورت لگتا ہے لیکن اگر یہی بیٹا اپنی بیوی کا ہاتھ بٹانے کی غرض سے گھر کا کوئی چھوٹا موٹا کام کر دے تو اُسے چوڈو، رن مرید، بڈی تھلے لگااور نجانے کون کون سے خطابات سے نواز دیا جاتا ہے۔
یہ مرد عورتوں کی طرح بیوی کو جہیز کم لانے کا طعنہ تو دے سکتا ہے لیکن خود کماکر اپنے گھر کی چیزیں پوری نہیں کر سکتا۔ ہمارے معاشرے کو دیکھ کون یقین کرے گا کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُمتی ہیں؟ جنہوں نے خود بھی خواتین کی عزت کی اور ہمیں بھی حکم فرمایا ہے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر:کاہنہ لاہور imtiazali470@gmail.com