بن مانس کو اِنسان قرار دینے کی درخواست

Non Human Rights

Non Human Rights

آج اِس پُرآشوب دور میں روئے زمین پر بسنے والے کم وبیش ساڑھے چھ ارب اِنسانوں کے کیا پہلے ہی مسائل کچھ کم ہیں؟ یا آج اِنسانوں کے تمام حقوق اِنہیں مل گئے ہی؟ یا کیا تیسری دنیا کے تمام غریب ممالک کے اِنسانوں کو اِن کی ساری بنیادی آسائش زندگی میسر آگئیں ہیں؟ آج جو اِس پریشان حال اِنسانی برادری میں شمولیت کے لئے نیویارک کی عدالت میں وہاں کی جانوروں کی ایک تنظیم نے انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ ایک انوکھے انداز سے یہ درخواست دائر کی ہے کہ امریکا میں موجود ایک ٹامی نامی بن مانس کو بھی اِنسان قرار دیا جائے، اِس تنظیم کا اپنی درخواست میں بن مانس سے متعلق یہ موقف ہے کیوں کہ بن مانس میں بعض اِنسانوں جیسی خصوصیات درجہ بدرجہ پائی جاتی ہیں اِس لئے بن مانس کو اِنسانی برادری میں شمولیت کا حکم نامہ صادر فرما دیا جائے، اور اِس حوالے سے جانوروں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے والی نان ہیومن رائٹس پرجیکٹ نامی تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف ایک عدالتی حکم سے ٹامی نامی بن مانس کو قانونی طور پر اِنسان قراردے کر اِسے اپنے جسم کے استعمال کی بنیادی آزادی مل سکے گی۔

اور اِس کے علاوہ تنظیم کا یہ بھی کہنا حیران کُن ہے کہ یہ تنظیم اِس ٹامی نامی بن مانس کو عدالتِ عالیہ سے اِنسان قرار دیئے جانے کے قانونی مراحل کے بعد اِس ٹامی نامی بن مانس کی طرح رواں ہفتے تین دیگر بن مانسوں کے لئے بھی ایسی ہی درخواست دائر کرنے والی ہے جبکہ اِس تنظیم کے کرتا دھرتاؤں نے بڑی اُمیدوں کے ساتھ یہ دعویٰ بھی درخواست کے ساتھ داغ دیا ہے کہ عدالت میں دائر شدہ درخواست میں بن مانسوں کے بارے میں قدیم وجدید سائنسدانوں کے حوالہ جات بھی دیئے گئے ہیں اور چاروں بن مانسوں کی رہائی کی بھی خواہشمند ہے، اَب اِس تنظیم کا یہ کہناہے کہ اِسے قوی اُمید ہے کہ عدالت بغیر کسی ھیل حجت کے چاروں بن مانسوں کو اِنسان قراردے کر اِنہیں اِنسانوں کے معاشرے میں اِنسانوں جیسی زندگی گزارنے کی اجازت دے دے گی۔

اَب اِس پس منظر میں راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ آج امریکا کا معاشرہ جو اِنسان اور اِنسانیت کے حقیقی احترام واخلاق اور صاف سُتھری اِنسانی تعلیمات اور زناو بدکاری سے پاک زندگی گزانے کے اُصولوں اور ضابطوں سے بھی نابلد ہے اور اُس معاشرے میں جہاں مدرپدرسب کچھ پہلے ہی آزاد ہیں آج اُسی ہی امریکی معاشرے سے جانوروں کے حقوق کے لئے سرگرم رہنے والی جس تنظیم نے نیویارک کی عدالت میں بن مانس کو قانونی طور پر اِنسان قرار دینے کے لئے درخواست دائر کی ہے یقینا اِس نے یہ سوچا ہو گا کہ جہاں کسی عدالتی حکم سے بن مانس اِنسان قرار پائیں گے تو وہیں اِن بن مانسوں میں حقیقی معنوں میں اِنسانوں والی خود اعتمادی بھی پیدا ہو گی تو وہیں ہمارے اِنسانوں کے معاشرے میں جس طرح جنسی بے راہ روی عام ہے اِس میں جنسی بے راہ روی کا رجحان مزید پروان چڑھے گا اور دوسری طرف اِنسانوں میں پایا جانے والا وہ شیطانی عمل جس میں رنگ کر اِنسان اپنے جیسے اِنسانوں کو مار رہے ہیں اِن شیطانی جبلت میں بھی زیادہ نہیں تو کم از کم تھوڑی بہت تو کمی کا رجحان ضرور پیدا ہو جائے گا۔

Chimpanzees

Chimpanzees

اور جب بیچارے بن مانس اِنسانوں کے روپ میں کرتوں کے اعتبار سے کسی اِنسان کی عادات واطوار سے واقف ہوں گے تو اِنہیں خود کو اِنسان قرار دیئے جانے پر یقینا غصہ نہیں تو افسوس ضرور ہو گا اور وہ یہ سوچیں گے کہ اِن سے کیا ایسی غلطی سر زد ہو گئی تھی کہ تحلیقِ قدرت کے کارخانے نے امریکی اِنسانوں کے ذہن میں یہ ڈالا کہ وہ بن مانس کو اِنسان قرار دینے کے لئے اپنی عدالت میں درخواست دائر کر کے اِنہیں اِنسان قرار دلوا کر اِن کا حال جانوروں سے بھی بدتر کر دیں۔ آج امریکا کی توبات ہی کیا ہے؟ وہاں مردوزن کی زندگی جنسی لحاظ سے جنگل میں پائے جانے والے ماحول سے بھی زیادہ خراب ہے، جہان جنسی تشدد کے یہ عالم ہے کہ اِس سے جنگل کے جانور بھی توبہ کرنے لگتے ہیں کیوں کہ جنگل کا بھی اپنا ایک اُصول اور ضابظہ ہے کہ جنگل کے جانور ایک مخصوص موسم اور ماحول میں جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں مگر امریکی معاشرے میں بسنے والے اِنسانوں کی جنسی آزادی کا یہ عالم ہے کہ امریکی معاشرے میں ہر منٹ بعد کھلے عام جنسی تشدد کا ہونا ایک ریکارڈ ہے۔

بن مانس اِنسان قرار دیئے جانے کے بعد جب امریکی معاشرے میں شمولیت اختیار کریں گے تو جنسی لحاظ سے مدرپدر آزاد ماحول دیکھ کر بن مانس بھی اپنے کانوں کو بار بار ہاتھ لگا کر یہ سوچنے اور غور کرنے پر ضرور مجبور کر ہو جائیں گے کے اِنہیں کس لئے اِنسان کا قرار دیا گیا ہے؟ اور جب بن مانس اِنسان قرار پاکر اِنسانوں کے معاشرے میں بسنے کے لئے آجائیں گے تو یہ خود بھی دیکھ لیں گے کہ خود کو مہذب کہلانے والا اِنسان کتنا اِنسان ہے اور کتنا جانور ہے؟ تب بن مانس جانیں گے کہ فرقوں، تہذیبوں، رنگ ونسل اور سیاست و مذہب میں بٹااِنسان جانور سے بھی کہیں زیادہ حیوان ہے، جو خود کو تہذیب یافتہ کہلاکر بھی آپس کی لڑائی جھگڑوں میں پڑ کر ایک دوسرے کے خون کا ایسا پیاسا ہے کہ ایسے تو جنگل میں رہنے والے جانور بھی نہیں ہوتے ہیں، اور اِنسان قرار پانے والے بن مانسوں کو اِس اِنسانی جلن اور حسد کا بھی اندازہ ہونا چاہئے کہ جب بن مانس اِنسان قرار پائیں گے تو دنیا بھر کے اِنسان آپس کی لڑائی جھگڑوں اور فسادات سے نکل کر اُن بن مانسوں کو مارنے اور اِنہیں ختم کرنے میں لگ جائیں گے جو اَب تک جانور ہونے کی وجہ سے جنگلوں یا پنچروں میں قید تھے اور اِنسانوں کی گرفت سے باہر تھے مگراِنسان قرارپانے کے بعد حقیقی اِنسان اِنہیں اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے والا ڈاکو سمجھ کر مارنے لگ جائیں گے، اور پھر زمین پر حقیقی اِنسانوں اور بن مانسوں کے درمیان ایک نئی جنگ جنم لیے لے گی۔

تواِس طرح کیا اِنسانوں کے جانوروں کے ماحول سے بھی بدتر ماحول کے معاشرے میں بن مانس اِنسان بن کر اپنی توہین کرانے کو تیار ہیں تو پھر ٹھیک ہے وہ اِنسان بن کر جانوروں سے بھی کم تر حیثیت میں آجائیں، چند دِنوں میں ہی بن مانسوں کو یہ احساس ہو جائے گا کہ اِنسان قرار پاکر اِنہوں نے بہت بڑ ی غلطی کی ہے، کیوں کہ جن حقیقی اِنسانوں کے معاشرے میں یہ بن مانس اِنسان بن کر شمولیت اختیار کریں گے اِن اِنسانوں کے معاشرے میں تو گرگٹ جیسے پل پل رنگ بدلتے اور اپنے مفادات کا سودا کرتے، دوسروں کی عزت لوٹتے، دوسروں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے، اور اِنسان اور اِنسانیت کو پامال کرتے، قدم قدم پر اپنے ضمیر کو فروخت کرتے اور اپنی ذاتی اوراِنا کی بنیاد پرفائدہ اٹھاتے اور کمزروں کے حق پر ڈاکے ڈالتے اور آستینوں میں پلتے سانپوں کی طرح ایسے اِنسان نما جانور پہلے سے ہی موجود ہیں جو پلک جھپکتے ہی اِنسانوں کو ڈس کر اپنا کام نکال لیتے ہیں اور حقدار کا حق مار کر اِنسانوں اور جانوروں کے حقوق کے علمبردار بھی بن جاتے ہیں۔

کیا ایسے اِنسانوں کے معاشرے میں بن مانس اپنے جنگل کے ماحول کو چھوڑ کر رہنا پسند کریں گے، جو اِنسان تو کیا صحیح طرح جانور کہلانے کے بھی حق دار نہیں ہیں، بالفرض آج اگر امریکی عدالت نے بن مانسوں کو اِنسان قراردے دیا تو پھر سوچیں اگلے وقتوں میں سارے جنگل کے جانوربھی آج کے ظالم اِنسانوں کے کرتوں کا موازنہ کرتے ہوئے خود کو اِنسانوں سے بہتر سمجھ کر اِسی امریکی عدالت میں اپنے لئے بھی اِنسان قرار دینے کی درخواستیں دائر کریں گے، تب آج کے اِن وحشی اور درندہ صفت اِنسانوں کی آنکھیں کُھلیں گی کہ ارے اَب تو اِن کی درندگی کو جنگل کے جانور بھی چیلنج کرنے لگے ہیں، کیا تب موجودہ قاتل اور جابر وفاسق امریکا سمیت دنیا بھر کے اِنسانوں کے لئے چُلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام نہیں ہو گا؟

azam azim azam

azam azim azam

تحریر:محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com