وہ آٹھ برس کی ایک گڑیا جیسی بچی تھی جس کے بال نوکدار چوٹیوں میں گندھے تھے اُس نے معصومیت سے ایک اسرائیلی سپاہی کو احتجاجاً مکہ دکھایا اُس کے بعد دیکھنے والوں نے دیکھا کہ سرخی ہی سرخی پھیل گئی، کچھ گوشت کے لوتھڑے، کچھ پھڑ پھڑاتے ہوئے رنگدار چیتھڑے زمین پر بکھرے پڑے تھے پھولدار سرخ کپڑوں میں ملبوس وہ گڑیا جیسی بچی تھی مجھے لگا اُس کے جسم کے پھڑ پھڑاتے ہوئے چیتھڑے، گوشت کے لوتھڑے مسلم امہ کے 1ارب 70 کروڑ 27 لاکھ 42 ہزار افراد کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہہ رہے ہیں کہ اب شام میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
تلوار نیام میں رکھ کر غوری و غزنوی کا وارث نہیں کہلایا جا سکتا ڈیڑھ ارب سے زائد خوابیدہ قوم کے لوگو ! تم اِبن ِ قاسم کی تلوار کے امیں بھی نہیں رہے تمہارے آباء نے دریائوں میں گھوڑے ڈالے تم ایک ایسی خوابیدہ قوم ہوجو اپنے حال سے نظریں چرائے مستقبل کی تیرگی سے نظر بچا کے پر شکوہ ماضی میں بسی ہے، کھوئی ہے جس کی آنکھوں کے سامنے ماضی کے عظیم لشکر گھومتے ہیں، قلعوں کے دروازے ٹوٹتے ہیں، تلواریں ٹکراتی ہیں۔
اٹھو کہ تاریخ شکست خوردہ لوگوں سے کبھی انصاف نہیں کرتی اٹھو کہ تمہاری ذلت دین سے غفلت میں ہے اٹھو کہ عمل اس وقت تک اندھیرے ٹٹولتا ہے جب تک اسکے راستے کو انقلابی نظریہ روشن نہ کرے تاریخ کا فیصلہ مہمات میں ایک شخص کی قیادت دلیل فتح و نصرت ہوتی ہے عبداللہ بن زبیر “ہم وہ نہیں ہیں کہ پیٹھ پھیر لیں اور ہماری ایڑیوں پر خون گرے ہم وہ ہیں کہ سینہ سپر رہتے ہیں اور ہمارے پنجوں سے خون گرتا ہے” حضرت ابو عبیدہ بن الجراح۔
خبردار! بہت سے لوگ اپنا لباس اجلا رکھتے ہیں مگر اپنا دین میلا رکھتے ہیں فلسطینی مائوں کی آہیں، گرتے بموں کی قاتل آواز، معصوم بچوں کے تڑپتے لاشے، لہو میں ڈوبا غزہ، بھوک سے پچکے پیٹ، اُدھڑی لاشیں تمہیں پکار رہی ہیں۔
ڈی ایٹ کانفرنس میں اُمہ کا درد رکھنے والے محمود احمدی نژاد نے اپنے سچ کی حقیقت بیان کر دی حقیقتیں کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہوں انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے شامیں لہو رنگ ہوں تو اُن کی نفی نہیں کی جا سکتی، آنسو رواں ہوں تو قہقہے لگانا مشکل ہو تا ہے۔
دہکتے ہوئے انگاروں کو چھوتی ہوئی مجاہد بچے کی آواز، گرتے ہوئے بچے کی آواز سنو سکول جاتے ہوئے اُن فلسطینی بچوں کے خون کے فوارے یاد کرو جن کے قدموں کی آوازوں کو گرد سے اٹی ہوئی گلیاں اب کبھی نہ سن پائیں گی اسرائیلی درندوں کی اُن گولیوں کی بوچھاڑ سنو جس سے دس اور بارہ برس کے نو عمر فلسطینی بچے کوڑے کے ڈبوں کے ڈھکنوں کے پیچھے پناہ لیتے وقت چھلنی ہو ہو کر گر رہے تھے۔
Jihad
ہماری مائوں کو فراموش مت کرو جو ایک متعین صبر کے ساتھ تمہارا انتظار کر رہی ہیں اٹھو کہ مجاہد میں تغیر نہیں آتا آ بھی جائے تو اس میں میل نہیں آتا باطل کے خلاف جہاد جبرو قہر ہے اس میں صلح نہیں ہوتی اٹھو کہ جذبے کے بغیر کوہ کن پیدا نہیں ہوتے اٹھو کہ جہاد فی سبیل اللہ جغرافیائی نہیں آئینی حدود پھیلانے کیلئے کیا جاتا ہے جرات ایک کیفیت ہے اور قربانی اس کیفیت پر گواہی، جرات ایک طرز ِاختیار کا نام ہے قربانی ایک طریق ِ ترک کو کہتے ہیں اٹھو کہ قانون فطرت کو توڑ کر آوارگیوں میں بسر کرنے والی قوم کے رنگیلے افراد مجاہد کی سخت زندگی کو قبول نہیں کر سکتے۔
اٹھو کہ غلام قوموں کی کہانی کہنے کیلئے مصر کے مینار یا عیش کا افسانہ سنانے والے لال قلعے رہ جاتے ہیںاور قوم فنا ہو جاتی ہے اٹھو کہ قومیں جب عمل سے عاری ہو جاتی ہیں تو حسن عمل کی بجائے چند عقائد کو ذریعہ نجات بنا لیتی ہیں سیدھی راہوں کو چھوڑ کر پیچیدہ اور فلسفیانہ موشگافیوں میں پڑ جاتی ہیں زبان اور دماغ کام کرتے ہیں دل تاریک اور ہاتھ بیکار ہو جاتے ہیں اٹھو کہ تمہاری عبادات عمل سے عاری ہیں جن میں دکھاوے اور دنیا فریبی کا عنصر ہے۔
قربانی کا سرخ لہو جب روانی سے رک جاتا ہے تو قوموں کی عظمت خاک میں مل جاتی ہے اٹھو کہ بے ہمتوں کیلئے رحمت آسمان سے نہیں برستی، با ہمتوں کیلئے زمین سے پھوٹتی ہیں آرام کی ضرورت صرف بیماروں کو ہے یا اوباشوں کو سچا دین وہی ہے قربانی جس کا آئین ہو تم میں افضل وہ ہے جس کے دل میں شہادت کی تڑپ ہے اسلاف کا رستہ، بدر کا رستہ کہ دریا اپنے سمندر کی طرف جانیوالے راستے پر ہمیشہ بہتا چلا جاتا ہے۔
اسے اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی کی پن چکی کا پہیہ ٹوٹتا ہے یا سلامت رہتا ہے اٹھو کہ مجرم کا انصاف مجرم نہیں کیا کرتے، سرکشوں کی صفائی گنہگار نہیں سنا کرتے فتح کے سو باپ ہیں اور شکست یتیم ہے جو سو جاتے ہیں کھو جانے کی رُت اُن پر ماتم کرتی ہے اٹھو کہ حق کا پرستار کبھی بھی ذلیل نہیں ہوتا چاہے سارا زمانہ اس کے خلاف ہو جائے اور باطل کا پیروکار کبھی عزت نہیں پاتا خواہ چاند اس کی پیشانی میں نکل آئے۔