عدلیہ کے افتخار ”افتخار چوہدری” کے بعد جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ صدر مملکت ممنون حسین نے ان سے عہدے کا حلف لیا۔ پاکستان کے نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی ساڑھے چھ ماہ تک نئے منصب پر فائز رہیں گے۔ ”انصاف سب کے لئے” یہ شاہکار عدالتی ترانہ نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا تحریر کردہ ہے۔ اپنی تخلیقی کاوشوں اور ادبی ذوق کا یہ تحفہ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے 2006ء میں سپریم کورٹ کو دیا جسے پاکستان کے عدالتی ترانے کا درجہ حاصل ہے۔ نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کا تعلق ملتان سے ہے۔
جیلانی صاحب نے ثانوی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔ ایف سی کالج لاہور سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ پھر یونیورسٹی آف لندن سے قانون کا ایڈوانسڈ کورس کیا۔ 1974ء میں ملتان سے ہی بطور وکیل پریکٹس کا آغاز کیا۔ ڈسٹرکٹ بار ملتان کے جنرل سیکرٹری بھی بنے۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے منصب پر فائز ہوئے۔ 7 اگست 1994ء کو لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے جبکہ 31 جولائی 2004ء کو سپریم کورٹ کے جج تعینات ہو گئے۔
2007 میں انہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا اور اسی سال 3 نومبر کو انہیں سپریم کورٹ میں جج کی حیثیت سے کام کرنے سے روک دیا گیا، تا ہم 2009 میں وہ دیگر ساتھی ججوں کے ساتھ صدارتی حکم نامے کے ذریعہ بحال کردیئے گئے، جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بہت سے اہم مقدمات میں تاریخ ساز فیصلے دیے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ ان کے لکھے فیصلوں کو سمجھنے کے لئے اچھے اچھوں کو ڈکشنری کھولنا پڑ جاتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے تمام جج صاحبان میں جسٹس جیلانی کا لب و لہجہ بہت نرم ہے۔ ان کے انگریزی تلفظ کی تو سب ہی تعریف کرتے ہیں۔ انصاف سب کے لئے ترانہ انہوں نے انگریزی میں لکھا اور خود ہی اس کا خوبصورت اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جعلی ادویات کے باعث 100 سے زائد ہلاکتوں کا ازخود نوٹس جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ہی لیا تھا۔ ڈرون حملوں کے خلاف ایک درخواست جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اس لیے مسترد کر دی کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتا تھا۔
عدلیہ بحالی کے بعد سپریم کورٹ کے جس بنچ نے نواز شریف اور شہباز شریف کو انتخابات کے لیے اہل قرار دیا اس بنچ کے سربراہ جسٹس تصدق حسین جیلانی تھے۔ جسٹس جیلانی کی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے دور پرے کی رشتہ داری بھی ہے۔ اسی لیے انہوں نے گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت نہیں کی تھی۔ بظاہر نرم خو اور دھیمے مزاج کے جج جسٹس تصدق حسین جیلانی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اپنا رول ماڈل قرار دے چکے ہیں۔ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کے دور میں بھی آئین و قانون پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔
Nasir-ul-Mulk
جسٹس تصدق حسین جیلانی صرف 7 ماہ چیف جسٹس آف پاکستان رہیں گے۔ ان کے بعد جسٹس ناصر الملک بطور چیف جسٹس ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ وہ 13 ماہ اس عہدے پر کام کریں گے۔ وہ اس وقت قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ جسٹس ناصر الملک کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس جواد ایس خواجہ مختصر ترین مدت کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان بنیں گے۔ وہ اس عہدے پر صرف 23 دن رہیں گے۔ ان کے بعد جسٹس انور ظہیر جمالی چیف جسٹس کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ ان کی مدت پندرہ ماہ ہو گی۔
جسٹس میاں ثاقب نثار 2 سال 2 ماہ اور جسٹس گلزار احمد 3 سال ایک ماہ تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہیں گے۔ ان کے بعد بھی سینئر ترین جج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دے گا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری عدلیہ کی تاریخ میں طویل ترین چیف جسٹس آف پاکستان رہے۔ نامزد چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا کہنا ہے کہ ازخود نوٹس کے اختیارات کے معاملے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ جعلی درخواستوں، بے بنیاد مقدمات اور اختیارات کو ذاتی مفاد میں استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ آئین کے آرٹیکل 184 (3) نے یہ اختیار گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لئے دیا ہے جسے آئین کی حدود میں استعمال کیا جائے گا۔ از خود نوٹس کا اختیار استعمال کرتے وقت اختیارات کی تقسیم کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ عدالت کو ریاست کے تینوں ستونوں کی آئینی حیثیت کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔
اس کے ساتھ ساتھ خاص طور پر آئین کی شق 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل کے حصول کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اپنے عہدے کے پہلے ہی دن فل کورٹ ریفرنس کے دوران گزشتہ روز میڈیا چینلز کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل رجسٹرار کو تحقیقاتی افسر مقرر کر دیا ہے۔ نئے چیف جسٹس نے واقعے کی مکمل اور غیر جانبدار تحقیقات کی ذمہ داری اور اس میں ملوث افراد کی نشاندہی کی ذمہ داری ایڈیشنل رجسٹرار محمد علی کو سونپ دی ہے جو جلد ہی اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ چیف جسٹس کو پیش کریں گے۔ ازخود نوٹس سے قبل چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سپریم کورٹ پہنچنے پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی سے صحافیوں کے وفد نے ملاقات کی تھی، جس میں صحافیوں نے ان کی توجہ گزشتہ روز پیش آنے والے غیر خوشگوار واقعے ک جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تھی، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ہونے والی بدمزگی ان کے علم میں ہے، انہوں نے عہدے کی ذمہ داریاں ہی سنبھالی ہیں اور آج ہی اس معاملے کا نوٹس لیں گے۔
گزشتہ روز سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس کی سرکاری اور نجی میڈیا کو کوریج کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن اجلاس کی فوٹیج ایک نجی ٹیلی ویڑن چینل کو فراہم کر دی گئی جس کے خلاف ملک بھر میں صحافیوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا اور نئے چیف جسٹس نے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔ پاکستان کی عوام اب افتخار چوہدری کے بعد سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس تصدق حسین گیلانی کے انصاف پر مبنی فیصلوں کی منتظر ہے۔