یوٹا متحدہ ریاست آف امریکہ کی ایک ریاست ہے، جس میں والز برگ نامی ایک قصبہ ہے جو سالٹ لیک سٹی سے 40 میل کی دوری پر واسیچ کائونٹی کی حدود میں واقع ہے، اس کی آبادی صرف 275 نفوس پر مشتمل ہے، قصبے میں 5 نومبر 2013 کو بلدیاتی انتخابات ہونے تھے مگر سرکاری حکام بلدیاتی انتخابات کروانا بھول گئی، اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ کہ قصبے کہ باسیوں کو بھی یاد نہ رہا کہ ان کے قصبے میں بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں اور اس ضمن میں متعلقہ حکام سے رابطہ کیا جائے۔ سرکاری حکام بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے اگاہ کرنے کیلئے اشتہارات شائع نہیں کر سکے۔ متعلقہ حکام خواب غفلت سے اس وقت جاگے، جب انتخابات کی تاریخ سر پر آگئی۔ ہوش آنے پر انہوں نے اعلیٰ احکام سے پوچھا کہ اب کیا کیا جائے۔
جوابا والز برگ کے گذشتہ بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ مزید دوسال تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہیں، جب تک اگلے انتخابات کی تاریخ نہ آجائے۔ والز برگ کی انتظامیہ میں میئر کے علاوہ سٹی کونسل کے چار ارکان شامل ہوتے ہیں۔ والز برگ اتنا چھوٹا قصبہ ہے کہ نہ تو اس کی کوئی آفیشل ویب سائٹ ہے اور نہ ہی تنخواہ دار عملہ، قصبے کہ لوگ کام کے سلسلے میں قریبی آبادیوں کا رخ کرتے ہیں۔ والز برگ کا موجود میئر پیشے کے لحاظ سے الیکڑیشن ہے۔
Election Commission
امریکہ میں کو غلطی سے ایک قصبے میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہوسکے مگر پاکستان میں جمہوری حکومت کی آمد 2009 ء کے بعد سے بلدیاتی الیکشن تادم تحریر التواء کا شکار ہے۔ 29 نومبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبہ پنجاب میں انتخابات کا شیڈول جاری کرنا تھا، مگر ایک بار پھر التواء کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ وجہ صرف اور صرف ایک، کہ ابھی تک حلقہ بندیوں کا عمل مکمل نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد پہلے 7 دسمبر کو الیکشن کروانے تھے، جس کے بعد یونین کونسل اور وارڈز کی سطع پر انتخابی گہما گہمی شروع ہو گئی تھی۔ امیدواروں نے الیکشن ہال کھول کر ووٹروں سے رابطے شروع کر دیئے تھے، مگر الیکشن التواء ہونے کے بعد الیکشن گہما گہمی دوبار مانند پر چکی ہے۔ دیواروں پر لگے پوسٹر اسٹیکر فلیکس اور بینر اترنے شروع ہو گئے ہیں۔
عامر کے دو دوست انتخابات میں امیدوار ہیں، ان میں سے ایک بہت زیادہ دولت مند خود غرض چاپلوس مطب پرست اور رشوت خور ہے اور دوسرا ایماندار۔ ملن سازاور دوسروں کی عزت کرنے والا۔۔ علاقہ کی ترقی کا خواب ذہین میں سجائے اور میڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔ دونوں دوستوں کی خواہش تھی کہ عامر ان کو انتخابی میں کامیاب کروانے کیلئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرئے۔ عامر ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، اور ایک کرایہ کے مکان میں مقیم ہے، جس کا کرایہ بھی گذشتہ دو ماہ سے ادا نہیں کیا گیا، جس پر مالک مکان نے مکان خالی کرنے کا نوٹس دیا ہوا ہے، اس کے علاوہ اس کے والدین اور بچے بھی سردی کا شکار ہے جن کو مناسب ادویات کی ضرورت ہے۔ عامر کی اس حالت سے فائدہ لیتے ہوئے امیر دوست نے 30 ہزار روپے کی آفر کی۔ کہ اگر عامر اس کا ساتھ دیتا ہے تو وہ اس کی مالی امداد کرنے کو تیار ہے۔ اور ساتھ کہا تمہارے پاس فیصلہ کیلئے ایک دن ہے، اس ایک دن میں فیصلہ کر لو۔ اگر تم نے مجھے انتخاب جتوانے کیلئے کام کیا تو یہ 30 ہزار تمہارے۔
عامر کے بقول وہ ایک دن میرے لیے بڑے سخت امتحان کا تھا، یہ ایک دن اسے ایک ہفتے، ایک ماہ، ایک سال اور ایک صدی سے بھی لمبا محسوس ہوا۔ ایک طرف 30 ہزار روپے تھے جس سے میں مکان کا کرایہ ادا کرسکتا تھا، والدین اور بچوں کیلئے ادوایات خرید سکتا تھا، اور دوسری طرف حلقہ کی عوام کا مستقبل تھا، ایسی پوزیشن تقریب تمام ایماندار اور محب الوطن پاکستانیوں کے سامنے آتی، جب ہم اپنے ووٹ کا استعمال کرنے جاتے ہیں، ایک طرف ایماندار محب الوطن امیدوار ہوتا ہے تو دوسری طرف چور ڈاکو شراب فروش راشی ملک دشمن امیدوار ہوتا ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ قارئین ہمیں چاہیے کہ ووٹ کاسٹ کرتے وقت دوستی برداری تعلق دولت کو رد کرتے ہوئے قابل امیدوار کو ووٹ کاسٹ کرئیں، پھر ہی ملک میں تبدیلی آسکتی ہے۔