سیاست دان اور لیڈر میں فرق

Nelson Mandela

Nelson Mandela

ایک عظیم لیڈر آج اِس دنیا میں نہیں، جس کو سپرد خاک کرنے سے پہلے اُس کی آخری رسومات ١٥ دسمبر بروز اتوار اُس کے مذہبی طریقے سے ادا کرنے کی خبریں، جس میں پوری دنیا سے ہر رنگ نسل اور عقیدے کے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے اس کی زندگی کے ماہ و سال پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا، وہ ولی، پیغمبر نہیں تھا محض ایک عام انسان اور جو خراجِ تحسین سپردِ قلم کیا جا رہا ہے یہ ایک انسان کی تکریم ہے کیو ں؟ اُس نے اپنی زندگی کے سنہری ماہ و سال اپنی قوم کی آزا دی کے لئے زنداں کی نظر کر دئے کیوں؟ کہ وہ سیاست دان نہیں بلکہ لیڈر تھا اور اُس کے سامنے اُسکی آنے والی نسل اور موجود قوم کا حال تھا جس میں وہ پس رہی تھی، سفید چمڑی والے اُن کا استحصال کرہے تھے اُس نے قوم کی آزادی کے لئے اپنی خُوشیاں تمامتر جذبات اور زندگی وقف کر دی، ایسا شخص جسکی پشت خالی ہو ٢٧ گھنٹے جبر کے سائے میں گزارنا مشکل ہو جاتے ہیں، ہم سب لکھ رہے ہیں ٢٧ برس زند اںمیں گزرے مگر یہ کیسے گزرے یہ کوئی نہیں جان سکتا اور نہ ہی اُن ازیت ناک لمحوں کی منظر کشی کر سکتا ہے کہ یہ تجربہ کا علم جو کتابوں نہیں ملتا، مگر میں اِن ٢٧ برسوں کو ٢٧ برس نہیں کہہ سکتا یہ تو ٢٧ صدیاں تھیں نہیں ٢٧ زمانے جو اُس نے گزارے، لکھا ہے سچائی اپناؤ تو سچائی تمہیں آزاد کرے گی۔

تب باہر کی دنیا اس کی سچی لگن کے سامنے سرنگوں ہوگئی اور اُس نے اپنی منزل پالی، یہ تھا نیلسن منڈیلا جس نے تشدد کا راستہ نہیں اپنایا اُس نے خاموشی اور سچائی سے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور ایک دن جبر کی تمام قوتیں اُس کے سامنے جھک گئیں یوں سچائی فتح مند ہوئی انتخابات میں اُس کی جماعت کامیاب ہوئی وہ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کا خاتمہ کرتے ہوئے ملک کے صدر منتخب ہوئے تب انہوں نے پہلا اعلان کیا اب ان کی کوئی پارٹی نہیں اور نہ ہی کوئی خاندان نا کوئی مخصوص گروپ اُس نے ہر قسم کی انتقامی سیاست ترک کرتے ہوئے مفاہمت اور سچائی کو دنیا میں مثال کے پیش کیا، گوری چمڑی والوں کو ملک سے نکال نہیں دیا بلکہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے اُن کو بھی ساتھ لے کر چلا کیسا….دوسرا یہ بھی سچ ہے کہ اُس نے دنیا کو باعزت طور پر رہنے کا سلیقہ بھی سکھایا اور یہ سچائی اور مفاہمت کی راہ پر چل کر حکومت سے ممکن ہوأ اور آج دنیا اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہے کیا دوست کیا دشمن … ، ادھر ملک میں مفاہمتی راہ تو بے نظیر بھٹو نے بھی اختیار کی مگر اس مفاہمت کی منزل سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات واپس لئے جانے کی مفاہمت کی پالیسی تھی، تاکہ وہ پھر سے اقتدار حاصل کر سکیں اِس مفاہمتی پالیسی سے کرپشن کو بھی تقویت ملی اور …اِس مفاہمت نے جسے یہاں NRO کا نام دیا گیا تھا جس نے کرپشن کے تمام داغ دھو کر سب کو پاک کر دیا۔

Corruption

Corruption

عدالت عظمےٰ نے کوشش کی تڑیاں بھی لگائیں کہ کرپشن کے زریعہ لوٹی گئی دولت جو بیرون ملک منتقل کی گئی واپس لائی جائے مگر….پاکستان کی سیاسی اشرافیاں میں مفاہمت کے معنی کرپشن سے بری اور اقتدار میں حصہ اور بس…. ، اصغر خان کی رٹ پٹیشن کا آج تک کوئی سرا نہیں ملا کہ اُن لوگوں کو بھی کٹہرے میں لایا جا سکے جنہوں آئی جے آئی بنائی اور ۔۔ مگر اِس حمام میں تو سب ہی ننگے ہیں….. سیاست دان کی منزل اقتدار اور زاتی مفادات ہوتے ہیں، ملک میں دور دور تک نگاہ کریں کہیں کوئی زہن استعمال کرنے والا نظر نہیں آتا ورنہ آج یہ گیس بحران نہ ہوتا، ستم تو یہ ہے کہ کروڑ روپئے کی گاڑی رکھنے والا بھی سستا گیس چاہتا ہے بھلے عوام کو چولہے کے لئے گیس نہ ملے … مگر لیڈر، اُس کی منزل اقتدار نہیں بلکہ آنے والی نسل کی آزادی اور ترقی ہوتی ہے اور نیلسن منڈیلا نے دنیا میں اس کی مثال قائم کر دی ہے پھر اُس نے ایک اور مثال قائم کی کہ رضا کارانہ طور پر اقتدار سے الگ ہو گئے۔

مگر افسوس یہاں تو اقتدار کے حصول کے لئے عدالتی قتل سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا کچھ بھی کیا جا سکتا اور کسی بھی حد تک جا یا جا سکتا ہے بلکہ امیر المومنین بننے کی خواہش پر اقتدار سے چمٹے رہنا بھی حق سمجھا جاتا ہے … ١٧ ویں ترمیم میں تیسری مرتبہ وزارت عظمےٰ کے لئے پابندی لگائی گئی مشرف سے مفاہمت کا نتیجہ تھا کہ تیسری مرتبہ وزیرآعظم کے لئے ١٨ویں ترمیم لائی گئی۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ پاکستان میں کرپشن کو معاشرے کا حصہ بھی تسلیم کر لیا گیا ہے اور بڑی دیدہ دلیری سے تمام دولت بیروں ملک بھیجی جا رہی ہے تو کچھ مبالغہ نہیں ہو گا، ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ سیاست دان کہتے ہیں شائد یہی کچھ عوام سننا پسند کرتے ہیں، جیسا کہ عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف دھرنا دیا، لوگوں کی بڑی تعداد دھرنے میں شریک ہوئی… سوال ہے کیا یہ عوام کا مسلہ تھا، کیا اس سے گرانی کا بھوت قید کر لیا جانا تھا، کیا دھرنے سے عوام کے مسائل حل ہونے مدد یا حل ہو جاتے اگر نہیں تو پھر یہ لوگ کیوں تالیا بجانے آئے، اِس دھرنے نے عوام کو کیا دیا، یہ تو خاں صاحب کا اپنا مسلہ تھا اِس سے بھوکے عوام کا کوئی تعلق یا واسطہ نہیں تھا تو بھی عوام آئے اور خوب تالیا بھی بجائیں۔

جبکہ ملک بھر کی اقلیتیں اپنے لئے اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں ،١٨ویں ترمیم میں انہیں بھی اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا جانا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہوأ کہ یہ محض اقلیتوں کا مسلہ تھا جو کلی طور پر شائد پاکستانی نہیں…. ، پاکستان میں ایک حلقہ ایسا بھی ہے جس نے کسی تبدیلی کے لئے تشددکی راہ اختیار کی جس سے نا صرف ملک کا ایمج دنیا میں خراب ہوأ اور پاکستانی کی شناخت محض دہشت گرد کے حوالے سے ہوتی.. بیرون دنیا سبز رنگ کے پاسپورٹ کو نفرت سے دیکھا جاتا ہے یہ اِس لئے کہ دہشت گردوں نے پاکستان کا ایمج گہنا دیا ہے وہ تشدد کے زریعہ ملک میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں،.اور اپنے ہی ہزاروں نہتے عوام موت کے گھاٹ اتار دئے گئے اُن کے خودکش حملوں پر مفتی آعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے کہا خود کشی سنگین جرم ہے جنہیں جہنم جانے کی جلدی ہوتی وہی خود کش حملے کرتے ہیں، اخبار کے لئے معمولی خبر تھی اندرونی صفحات میں محض ایک کالمی…!

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م.بدرسرحدی