داستاں اس دیس کی جو تقسیم ہوا

Jamaat Islami Flag

Jamaat Islami Flag

برصضیر بٹوارے کے بعد جہاں سرحدیں تقسیم ہوئیں وہاں مسلمانوں کی بڑی اسلامی جماعت بھی تقسیم کی زد میں آئی اس جماعت کے کچھ اراکین ہندوستان میں، تھوڑے پاکستان میں اور چند بنگلہ دیش میں بٹ گئے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے ممبران سن اکہتر میں کسی طور نہ چاہتے تھے کہ پاکستان دوبارہ تقسیم ہو جس کے لئے انھوں نے یقینا کوششیں بھی کی ہوں گئیں لیکن جہاں بہت سا رے عوامل اس علیحد گی میں کار فرما رہے وہاں جماعت اسلامی کی کوششیں بھی رائیگاں گئی آج جب اس واقعہ کو گزرے چار دھائی سے زیادہ ہو گئے اور بات محض لکیر پیٹنے کی حد تک رہ گئی تو بنگلہ دیش کی حکومت کا چن چن کر جماعت اسلامی کے اراکین کو سزائیں دینا کہاں کا انصاف ہے شائد ابھی تک دلوں سے نفرت کے بادل چھٹے نہیں، دور بیں شاعر فیض احمد فیض بہت پہلے کہ گئے ہم ٹہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ ڈھاکہ حکومت کا بغض اب تک ختم نہیں ہوا امیر جماعت اسلامی کو سزائے موت دینا وہ بھی ایسے موقع پر جب سقوط ڈھاکہ کا مہینہ ہو قابل مذمت ہے ہم پا کستا نی کس طرح بھول سکتے ان واقعا ت کو جن کے چشم دید گو اہوں نے کتابیں لکھ لکھ کر آنے والی نسلوں کے لئے چشم عبرت کی تا ریخ رقم کر دی ہو۔

16 دسمبر کے سیاہ دن میجر جنرل ناگر ایک گولی فائر کئے بغیر ڈھا کہ میں دا خل ہو گیا اس کے ساتھ مٹھی بھر بھا رتی فو ج اور ڈھیر ساری فاتحانہ نخوت تھی عملا یہ ڈھاکہ کا اختتام تھا اگرچہ اس کو دفن کر نے کی رسم ابھی باقی تھی ڈھاکہ یوں چپ چاپ سو گیا جیسے اچانک حرکت قلب بند ہو گئی ہو وہاں نہ کوئی ہائو ہو ہوئی نہ کوئی مار کٹائی ہوئی، سنگا پور، پیرس برلن کے سقوط کی کوئی کہانی نہ دھرائی گئی دیکھتے ہی دیکھتے ایسٹرن کمانڈ کے ہیڈ کواٹر کو سمیٹ لیا گیا دیواروں سے جنگی نقشے اتار لیے گئے ٹیلی فون کی روح قبض کر لی گئی بھارتی ماتحتوں کے لیے پرانے ہیڈ کواٹر کو جھاڑا پونچھا گیا۔ میجر جنرل جیک اپنے ساتھ ایک دستاویز لائے جسے ” سقو ط ڈھا کہ کی دستاویز ،، کہا جا تاہے جسے پاکستا نی جنرل امیر عبد للہ نیا زی جنگ بندی کا مسودہ کہنا پسند کرتے تھے تھوڑی دیر میں بھارتی کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے استقبال کے لیے جنرل نیازی ڈھاکہ ائیرپو رٹ گئے بھارتی کمانڈر جنرل اپنی فتح کی خوشی میں اپنی شریمتی کو بھی سا تھ لا یا تھا جو ں ہی یہ میا ں بیوی ہیلی کا پٹر سے اترے، لاکھوں بنگالی مردوں اور عورتوں نے اس نجات دہندہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا پھولوں کے ہار پہنائے شکریہ کے جذبات سے خوش آمدید کہا جنرل نیازی نے سلوٹ کیا یہ نہایت ہی دلدوز منظر تھا فاتح اور مفتوح۔ وہاں سے دونوں جنرل رمنا ریس کورس گر اونڈ آئے جہاں سر عام جنرل نیازی سے ھتیار ڈالنے کی تقریب کا نظارہ کر نے کے لیے لاکھوں بنگالی موجو د تھے چھوٹی سی میز پر بیٹھ کر جنرل نیازی نے سقوط مشرقی پاکستان پر آخری مہر ثبت کی۔ اس اقتبا س کے خالق بریگیڈیر صدیق سالک اس تمام سانحہ کے چشم دید گواہ ہیں ہماری نئی نسل اور ہمارے قائدین کے لیے ان کی کتا ب ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا ” چشم عبرت سے کم نہیں اس تاریخ کے حقائق کو جاننا ان غلطیوں کی روشنی میں اپنی اصلاح کرنا 16 دسمبر کی اصل بنیاد ہے۔

PIA

PIA

مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک گھمبیر اور وسیع موزوں ہے جس کے کئی تاریخی، سیاسی اور معاشی پہلو ہیں مگر بھارت کی جارحیت اور سازش نے اہم کردار ادا کیا شروع دن سے بھارتی سیاست دانوں اور حکمرانوں نے پاکستان کو دل سے قبول نہیں وہ مشرقی پاکستا ن میں دبی چنگاری کو شعلے میں تبدیل کر نے کی تگ ودو میں لگے رہے ایک طرف تو وہ بنگالیوں میں قوم پرستی کے جذبہ کو ابھار رہے تھے تو دوسری طرف انھوں نے مغربی اور مشرقی پاکستا ن کے درمیان حائل جغر افیائی فاصلے کو اپنی مفاد میں استعمال کرنے کوششیں بھی جاری رکھیں بظاہر 30 جنوری 1970ء کو دو کشمیری نوجوان ہندوستان کا فوکر طیارہ اغوا کر کے لاہور لائے بعد کی عدالتی تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ ہندوستان کی سازش تھی اس نے اس واقعہ کو بہانہ بنا کر ہندوستان کے اوپر سے گزرنے والی پی آئی اے کی پروازیں بند کر دیں اسکا نتیجہ یہ نکلا دونوں صوبوں میں جو فاصلہ دو گھنٹے میں طے ہو تا اب (بر استہ سری لنکا) چھ گھنٹے لگتے تھے اغوا کی یہ اسکیم ہندوستان نے بہت پہلے تیار کی تھی مگر اس پر عمل درآمد بھٹو مجیب مذ اکرات کی ناکا م ہو نے پر کیا اس طر ح اسے ڈھاکہ سے قریب ہونے کی وجہ سے کھلم کھلا مشرقی پا کستا ن میں مدا خلت کی موقع ملا ملا۔

سقوط ڈھاکہ کے اسباب واقعات میں غیروں نے تو اپنا کردار ادا کیا ہی تھا اپنوں کا کیا حصہ تھا کہاں کہاں اور کیا کچھ سازشوں کے تانے بانے بنے گئے تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو اصلاح احوال کی کہیں کوئی صورت نظر نہیں آتی حمود الرحمانٰ کمیشن رپوٹ کا ایک حصہ شا ئع ہو گیا دوسرا حصہ ابھی باقی ہے اسے بھی شائع کر دیا جا ئے تا کہ تما م حقائق ب نقاب ہو جائیں اور قوم کو معلوم ہو جائے کہ اصل مجرم اوسازشی کون تھے ۔

قیام پا کستا ن میں مشرقی پاکستا ن نے اہم کردار ادا کیا 1930ء میں مسلم لیگ اسی صوبے میں قائم ہوئی جب 1940ء میں پا کستا ن کی قراداد منظور کرنے کے لیے ووٹ ڈالے گئے تو بنگال کے مولوی عبد الحق نے پاکستا ن کے حق میں ووٹ دیا قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کے سیاسی کردارو نے مشرقی پاکستان کے لیڈروں سے ہتک آمیز سلوک روا رکھا اسمبلیوں میں ان کے کسی مشورہ اور تجویز کو خاطر میں نہیں لایا جاتا تھا اردو کو سر کاری زبان قرار دینے کا فیصلہ بھی اس نفرت میں اضافہ کا سبب بنا بنگالی قومیت کے جذبات کو ابھارا گیا مشرقی پاکستان کے وسائل اور آمدنی مغربی پاکستان پوری طرح استعمال کررہا تھا اس کے احساس محرومی کابیج آہستہ آہستہ نفرت کے تنا آور درخت میں تبدیل ہو رہا تھا ایسے سنہری موقع سے بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا بنگالی عوام کو اپنی ہمدردیوں کے فریب میں جکڑ کر بنگالی بہاری فسادات کرائے گئے ڈھاکہ یورنیورسٹی کے وائس چا نسلر ڈاکٹر محمود الحسن جو وفاقی وزیر بھی رہ چکے تھے ان کا کہنا تھا ”کہ مشرقی پاکستان میں فسادات کا اصل سبب مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان وہ غلط فہمیاں ہیں جن سے نفرت پیدا کی جا رہی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اختلافا ت ختم کئے جا تے مگر ان سے لا پروائی برتی گئی جنرل ییحیٰ خان کی آمریت کے سائے میں ٩ دسمبر 1970ء کو الیکشن کرائے گئے نتائج سامنے آئے تو مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الر حمن کی پارٹی عوامی لیگ نے اور مغربی پاکستان سے ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ مارچ کو قوانین کے مطابق ڈھاکہ میں اجلاس منقعد ہونا تھا مگر پیپلز پارٹی نے بیٹھنے سے انکار کر دیا ان معاملات کو سلجھانے اور دونوں لیڈروں کو متحد کرنے کی خوبی ییحیٰ خان میں نہ تھی ان کی اپنی مصروفیا ت اور دلچسپیاں تھیں انھیں کوئی غرض نہ تھی کہ پاک فوج کس قدر نا مساعد حالات میں مشرقی پاکستان کو سنبھالا دیے ہوئے ہے بار بار کے ٹیلفون اور پیغامات دینے کے باوجود جنرل ییحیٰ کوئی جواب نہ دیتے تھے بالاخر شیخ مجیب الرحمن کی شرانگیزی اور بغاوت کے باعث پاک فوج اپنا قبضہ قائم نہ رکھ سکی اور ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔

East Pakistan

East Pakistan

زندہ قومیں ماضی کی غلط فیصلو ں سے سبق سیکھ کر اپنے مستقبل کو بہتر بناتی ہیں لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری بیورو کریسی نے ماضی کی غلطیوں سے چشم پوشی کی حمودالرحمن کمیشن رپوٹ کبھی منظر عام پر نہ آسکی اس بارے میں بھی کچھ حقائق قوم کے سامنے آنے چاہیے اور سانحہ مشرقی پاکستان کی غلطی کو یاد کر کے اس بات سے پر امید تھے کہ اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے آزاد عدلیہ اور میڈیا کی آزادی نے عوام کو صیح حقائق کا ادراک دیا عوام جا نتے ہیں آج بھی صوبے اپنے وسائل کو استعمال کے لیے وفاق کے دست نگر ہیں اب بھی ہم لسانی قومیتی فسادات کا شکار ہیں دہشت گردی کے آسیب نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں جکڑ رکھا ہے بھارت وزیرستان اور بلوچستان میں کھلی مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے ان مسا ئل سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی اور 16 دسمبر کو ہم پاکستانیوں کو تقسیم کے عوامل پر تھوڑی دیر کو سہی غور ضرور کرنا چاہئے کہ برصغیر بٹوارے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک موجودہ حالات میں تقسیم در تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تحریر: عینی نیازی