جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملا کو متحدہ پاکستان کا حمائیتی ہونے کی وجہ سے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا پاکستانی حکومت کی مجرمانہ غفلت کے باعث یہ افسوس ناک واقع ہوا مجیب الرحمن اور بھٹو کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ کسی فوجی یا سول پر اس سانحہ کی وجہ سے مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔
کالم کا عنوان سقوط ڈھاکہ ہے یہ سانحہ کیوں اور کیسے ہوا۔ قوم 16 دسمبر کو وطن عزیز کے دو لخت ہو نے کا سوگ منا رہی ہے بلا شبہ اس دن کا سورج ہمیں شر مندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور ہمیں آئندہ کے لئے بھی اپنے مکار دشمن ہندوستان کی ایسی ساز شوںسے ہوشیار رہنے اور ان سازشوںکا بر وقت توڑ کرتے رہنے کی تلقین کر تا بھی نظر آتا ہے جو 16دسمبر 1971کو پاکستان کے ایک بڑے حصے کو ہم سے جدا ہونے کا با عث بنی تھیںاور اس وقت کی بھارتی زنانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو یہ بڑ مارنے کا موقع ملاکہ آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بد لہ لے لیا ہے۔
دنیا کے زیادہ تر ممالک کی تاریخ جنگوں کے واقعات اور شکستوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے اگرچہ ہر قوم اپنی فتوحات پر فخر محسو س کرتی ہے شکست ان کے ذہنوں پر نا قابل فراموش نہایت تکلیف دہ اثرات چھوڑ تی ہے اور اس قوم پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ذلت کا داغ لگ جاتا ہے بد قسمتی سے ہماری ملکی تاریخ میں کوئی بھی قابل ذکر اور قابل فخر فتح نہیں ہے 16 دسمبر 1971 کی ذلت امیز شکست اور ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کا واقع ہماری المناک شکست کا بد ترین واقع ہے۔
تاریخ یہی بتاتی ہے اس تاریخ پر ذیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ملک توڑنے میں زیادہ حصہ پاکستانیوں کا تھا بعض سیاست دانوں کی ناپاک ملی بھگت نے42 برس قبل یہ ملک توڑ دیا بر صغیر کے مسلمانوں کو ایک ایسی ٹھیس لگی کہ جس کی کسک ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی ہندوستان کے مسلمانوں نے اعلان کیا کہ اب ہمارا محافظ کو ئی نہیں رہا۔
ہمیں اب خود اپنی طاقت پر جینا اور زندہ رہنا ہے لیکن پاکستان کے مسلمانوںنے اس شکست سے کو ئی سبق نہیں سیکھا۔ بد قسمتی سے پاکستان کو اللہ نے ایسے حکمران عطا کیے جن کو صرف اور صرف اقدار کی فکر ہوتی ہے وہ اس فکر میں رہتے ہیں کرسی بچی رہے ملک کا چاہے خانہ خراب ہو جائے سیاستدانوں نے اقدار کی خاطر اس ملک کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے یہ بات درست ہے کہ بھارت اور دوسرے ممالک نے پاکستان توڑنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن جب اندر انتشار ہو گا تو دوسروں کو تو موقع ملے گا ہی میں نے ایم اے ہسٹری کی کتابوں میں پڑھا مجیب الرحمن نے اکثریت حاصل کی تھی اگر بھٹو اقتدار کے اس قدر دیوانے نہ ہوتے مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کی دعوت دے دی جاتی تو ملک بچ سکتا تھا۔
Zulfikar Ali Bhutto
ملک توڑنے میں بھٹو کی ہٹ دھر می نے اہم رول ادا کیا اور اس نے مینار پاکستان پر جلسے میں کہا جو منتخب نمائند ہ مشرقی پاکستان جائے گا میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا سوال یہ پیدا ہوتا ہے قیام پاکستان کے وقت لاکھوںکی تعداد میں قربانیاں پیش کرنے والے غدارتھے بھٹو خو د اپنی کتاب ”عظیم المیہ”میںلکھتے ہیںکہ ہم 21مارچ 1971 کی سہ پہر چار بجے ڈھاکہ پہنچ گئے تھے ہمارے طیارے کو ایمر جنسی لینڈنگ کرنا پڑی کیونکہ پرواز کے دوران اس کے چار انجنوں میں سے دو خراب ہو گئے تھے مشرقی پاکستان کے اوپر پرواز کرتے ہوئے ڈھاکہ کے سبزے سے لہلہاتے میدانوں کو دیکھ کہ مجھ پر ایک ناقابل یقین کیفت طاری ہو گئی مجھے یہ یقین نہیںآ رہا تھا کہ یہ ہماری سرزمین اور یہ ہمارے عوام جنہوںنے قیام پاکستان میں بڑھ چڑھ کہ حصہ لیا تھا الگ ہوجانے کیلئے تیار کھڑے ہیں میں یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ ہمارے سات کروڑ بیس لاکھ ہم وطنوں کو پاکستان سے کاٹ کر الگ کیا جا ر ہا ہے آگے لکھتے ہیں مجیب الرحمن مجھ سے تنہائی میں ملے اور کہا کہ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہیے اور محبت وآہنگی کو فروغ دینا چاہئے بھٹو نے خود اعتراف کیا کہ وہ غدار نہیں تھے بلکہ ملک بچانا چاہتے تھے بد قسمتی سے سب سے پہلے بنگلہ دیش کو پاکستان نے ہی تسلیم کیا اور بھٹو نے آدھے پاکستان کا وزیر اعظم بننے پر اکتفاء کیا اب بھی اسی جماعت کی حکومت ہے جس نے ملک دولخت کیا۔
اب بھی ان کو کوئی فکر نہیں بلوچستان اور گلگت، بلتستان، میں کیا ہورہا ہے انکو اگر فکر ہے تو اقتدارکی توڑ پھوڑ کی کرپشن کی اور غریبوں کو ختم کرنے کی آج وطن عزیز جن حالات سے گزر رہا ہے ”خدا نہ کرے ” یہ سقوط ڈھاکہ جسے بلکہ اس بدتر حالات نظر آتے ہیں اب ہماری سرزمین پر بھارتی ایجنسی ”را” نے ہی اپنی سازشوں کے جال نہیں بچھائے بلکہ امریکی فوجی اور بلیک واٹرکے ارکان بھی یہاں دندناتے اور دہشت گردی کی گھناونی کاروائیوں میں ملوث نظر آتے ہیں جگہ جگہ انھوں نے اپنے ا ڈے قا ئم کررکھے ہیں۔
اب بھی موقعہ ہے ہمیں جتنی جلدی ہو سکتاہے امریکہ کی جنگ سے باہر نکلنا چاہئے اور وہ ہمارے تجزیہ نگا ر جو پہلے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان پر بوجھ سمجھتے تھے کہ وہ ہمار ی معیشت پر بوجھ ہیں اب ان عقل کے اندھوں کو دیکھانا چاہئے کہ دیکھوں اب پاکستان کی ساری انڈسٹریز کہاں منتقل ہو رہی ہے پاور لومز کہاں جا رہی ہیں 36 لاکھ پاور لومز پاکستان سے بنگلہ دیش منتقل ہو گیں سرمایہ دار پاکستان میں سرمایہ لگارہے ہیں یا بنگلہ دیش میں کاش سیاست دان اقتدار کے نشے میں اندھے نہ ہو تے اور میرے قائد محمد علی جناح کا پاکستان دولخت نہ کرتے تو ہم دونوں بازو ملکر ترقی کی نئی نئی منزلیں طے کرتے اور دنیا میں اپنا الگ مقام رکھتے۔
Hafiz Javed Rahman Kasuri
تحریر : حافظ جاوید الرحمان قصوری
وہ میر ابھائی میرے دیس کا حصہ کیوں ! مجھ سے جدا ہوا کیوں دل ٹوٹا رنجور ہوا کیوں ! غیرکی باتوں میں آیا کیوں ! جاملا دشمن کے سنگ پھر آج دسمبر پو چھ رہا ہے کہ ہم جیتے یا ہارے 71 کی وہ جنگ