جدھر دیکھو عوام کو ایک بیوقوف ریوڑ کی طرح ہانک کر حکمران ملک میں انقلاب لانے کے نعرے لگاتے پھر رہے ہیں۔ ملک میں انقلابی اقدامات کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو ایسا جوش دلا رہے ہیں کہ اب ان کی مت ماری گئی ہے۔
ملک میں ایسی تبدیلی لانے کے دعوے کر رہے ہیں جو پہلے کوئی بھی لیڈرنہیں لاسکا لیکن ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ یہ کونسے انقلاب کی بات کر رہے ہیں انہیں اس کا مطلب بھی پتہ ہے؟ ملک میں آگ لگ جائے یا سرعام قتل ہو جائے کوئی نوٹس لینے والا نہیں ہے۔ پاکستان کے تمام سیاستدان اپنے آپ میں مست ہیں۔
عوام سڑکوں پر آگئی ہے، ملک کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے۔ پر سیاستدان وعدے کر کے بھول جانے والی روائیت کو سینے سے لگائے آزاد پاکستان کو حاصل کیے گئے مقصد پرداغ لگا رہے ہیں۔
اپنے ملک کو اہمیت دینا کسی بھی ملک کی ترقی میں اولین حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے پاس بہت سے ممالک کی مثالیں ہیں۔ جنہوں نے ملک کی ترقی کو اپنے گھر پر فوقیت دی اور آج وہ ملک ترقی یافتہ بن گئے ہیں۔
کیونکہ ان ممالک کی نہ تو عوام اتنی سرپھری تھی کہ ملک میں تبدیلی لانے کے جوش میں سڑکوں پر ٹائر جلاتی، لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچاتی اور نہ ہی اپنے ہم وطنوں اورہم مذہبوں کو اتنی بے باکی سے قتل کرتی جیسا کہ پاکستانی عوام کرتی ہے۔
زیادہ دور جانے کی بجائے اپنے ہمسایہ ملک چین پر نظر دوڑا لیں، جو پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا لیکن آج پوری دنیا میں اپنی صلاحیت کا ڈنکا بجوا رہا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جوبہت عیّاش اور شرابی ہوا کرتی تھی لیکن جب اس نے ہوش سے کا م لیا تو اپنے آڑے آنے والی ہر مشکل سے لڑے اور آج جہازسے لے کر چھوٹی سی پینسل تک اس ملک کی اپنی ایجاد ہے۔ یہاں ایسا آئین اور قانون متعارف کرایا جس نے ایک ارب کے قریب عوام کو قواعد و ضوابط سے بآسانی سنبھال لیا۔
Pakistan
تبدیلیاں دو قسم کی ہوتی ہیں مثبت تبدیلی اور منفی تبدیلی پاکستان میں اس وقت جو صورتحال پنپ رہی ہے یہ معاشرے میں مسائل کو مزید بڑھاوا دیکر منفی تبدیلی پیدا کر رہی ہے۔ کسی ملک میں تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے حکمران اپنے آپ کو اپنی پالیسیوں کو اور ترجیحات کو بدلیں۔ پاکستان میں ہر کوئی تبدیلی کے نعرے لگا رہا ہے۔
سیاستدان عوام کے جذبات کو ڈھال بنا کر ہمیشہ سے اپنا کام نکلواتے رہے ہیںعوام سے سوچنے کے تمام اختیارات چھین کر ان کے صرف جذبات مجروح کیے اور ان کو کبھی مذہب کبھی حب الوطنی اور کبھی انا اور خودداری کے نام پر جوش دلایا۔
پر مجھے اٹھارہ کروڑ عوام میں سے کوئی بھی بتائے صرف دعوئوں سے، نعروں سے، جلوسوں سے، حکمرانوں کی چمچہ گری کرنے سے سڑکیں بلاک کرنے سے، عمارتوں کو آگ لگانے سے کونسا انقلاب آ گیا؟ کیا ملک میں رشوت خوری ختم ہو گئی؟ نظام سود برطرف ہوا؟ ملک سے مہنگائی اور کرپشن ختم ہو گئی؟ دہشتگردی کا خاتمہ ہوا۔
بھوک افلاس اور غربت پر قابو پا لیا گیا؟ فرقہ ورانہ کشیدگی کنٹرول میں آ گئی؟ جہالت اور جعلی پیر وں فقیروں کے آستانوں سے شفا ملنی بند ہو گئی؟ یقینا ہر ہوش مند شخص ان تمام اقدامات کی نفی ہی کرے گا کیونکہ تاریخ بھی گواہ ہے اور حال بھی۔ جب تک حب الوطنی کے نیم جذبے کی بجائے غلط کام کو غلط اور صحیح کام کو صحیح کہنے کی ہمت نہ ہو اور جب تک جوش کی بجائے ہوش سے کام نہ لیا جائے۔ تب تک نہ تو ملک سے محبت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی وفاداری اور جب یہ دونوں ہی پہلونہ ہوں تو پھر تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟