16 دسمبر

Dhaka

Dhaka

جانے کیوں برسوں کی جدائی کا لگا یہ گھائو مندمل نہیں ہو رہا حالانکہ کہتے ہیں کہ وقت بہت بڑا مرہم ہے مگر یہ سانحہ حب الوطنی کے ساتھ ایک ہیولے کی طرح چمٹ کر رہ گیا عبدالقادر ملا کو جب تختہ دار کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو سقوط ڈھاکہ کی برسی محض چار روز کے فاصلے پر تھی تب بھی مکتی باہنی کے غنڈوں کے ایما پر سقوط ڈھاکہ کا وار مشرقی پاکستان کے جسم پر ہوا اور آج پھر ہندو بنیئے کی خوشنودی کی خاطر موت کا کھیل کھیلا گیا لاہور جماعت اسلامی کے رہنما میاں مقصود کی ہچکیوں نے اس گھائو کو پھر تازہ کیا۔

پھر میجر رحیم نے بیساکھی ایک طرف رکھ دی اور المناک داستان کے اوراق اُلٹنے لگا مجھے لگا جیسے جنرل اروڑا کی فوجیں ایک بار پھر ڈھاکہ میں داخل ہو رہی ہیں لوٹ مار کا با زار ہر طرف مچا ہے میں تصور کی آنکھ سے 1971 کی جنگ میں بھارتی فوج کے کمانڈر کو دیکھ رہا تھا جس نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کے خلاف بغاوت کی بنیاد رکھی تاریخ کا ایک بھیانک روز جب90ہزار فوجیوںنے ڈھاکہ گرائونڈ میں ازلی دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔

رسوائی کا ایک دور شروع ہوا جو ایک بھائی سے دوسرے بھائی کی دائمی جدائی کا باعث بنا۔ میں یکا یک میجر رحیم کی آواز پر چونکا وہ کہہ رہا تھا میں ڈھاکہ سے کئی کلو میٹر دور اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ دشمن سے نبرد آزما تھا 4 روز سے ہم نے دشمن کو ایک انچ آگے سرکنے نہیں دیا۔

گولیوں اور گولوں کا تبادلہ بڑا ہولناک تھا ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں مگر کوئی ان کی جانب متوجہ نہ تھا کیونکہ ہم ابھی اپنی بقاء کے لیے لڑ رہے تھے نہیں ہم اپنے اسلامی وطن کی بقاء کے لیے لڑ رہے تھے کیپٹن محمد خان نے G-3 پر زور سے ہاتھ مارا مگر گولی باہر نہیں آئی۔ کیا ہوا؟ میں نے مورچے سے باہر فائر کرتے ہوئے پوچھا میجر گولی پھنس گئی۔

پاس بیٹھا لانس نائیک یوسف خان مسکرایا نہیں گولی نہیں ہم اور ہمارا وطن پھنس گیا۔ہمیں ہتھیار ڈال دینے چاہیئں میں غصے سے چیخا(Just you shut up)دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے تم شرم محسوس کرویا نہ کر و مگر میجر رحیم مر جائے گا اور لڑے گا آخری گولی تک یوسف ہنسا میجر ہمارے بنگالی بھائیوں نے تعاون سے انکار کردیا ہے بلکہ کئی تو مکتی باہنی کے ساتھ مل کر ہمیں جڑیں کاٹ رہے ہیں۔

Bangladesh

Bangladesh

پرسوں ہمارے جہاز بھی بنگالی ماہی گیروں نے ڈبوئے ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک محسن وطن اور محب وطن کو گولی مار کر زخمی کر دیا گیا مگر ڈاکٹر نے اس کا علاج کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس کو مرنے دو اور بھی سنو ہمارے بنگالی بھائی اور ہندوئوں نے مل کر بستی احمد پور کو جلا کر راکھ کر دیا کئی معصوم بہاریوں کو زندہ جلادیا ان کے بچوں کو ان کی مائوں کے سامنے کاٹا گیا۔

ڈھاکہ ائیر پورٹ تباہ ہو چکا ہے فضائیہ ناکام ہے وہ نہ تو ڈھاکہ ائیر پورٹ سے اڑ سکتی ہے اور نہ اتر سکتی ہے رہ گئی بری فوج تو وہ مکمل گھیرے میں آچکی ہے میں نجومی نہیں لیکن تلخ حقائق یہی ظاہر کررہے ہیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہم آج یا کل ہتھیار ڈال دیں گے ۔ میں نے سر جھکا لیا یوسف خان کا تجزیہ اور معلومات کبھی غلط نہیں ہوتے تھے اس وقت گڑ گڑاہٹ کی آواز سنائی دی ہم چونکے باہر دیکھ کر ہم دنگ رہ گئے ایک پورا ٹرک ایمونیشن اور بارود سے بھر کر ہندو بنیئے آگئے تھے مگر ڈرائیونگ پر ایک مقامی کو دیکھ کر میں بڑبڑایا تھا تم لوگوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

کیپٹن محمد خان نے پریشان ہوکر کہا تھا سر ! اب کیا کریں ہمارے پاس تین ہینڈ گرنیڈ ہیں اگر وہ اس ٹرک تک لے جائیں ایمونیشن بارود سمیت کئی دشمن جہنم واصل ہوسکتے ہیںیوسف نے کہا میںنے بھاری آواز میں کہا تھا کہ یہ نا ممکن ہے سر! مجھے آپ اجازت دیں ہتھیار ڈالنے کا کہنے والا ہتھیار اُٹھانے کا کہہ رہا تھا میں نے سختی سے انکار میں سر ہلایا میں یوسف خان کو کھونا نہیں چا ہتاتھا مگر شاید وہ فیصلہ کر چکا تھا ”نعرہ تکبیر” سے مختصر سا میدان گونج اُٹھا ہینڈ گرنیڈ تھامے وہ مورچے سے کودا ”یوسف” میں چیخا تھا مگر دوسر ے لمحے کئی گولیاں ہمارے سروں سے گزر گئیں۔

یوسف لڑکھڑایا مگر رکا نہیںاُس نے گرنیڈ کا پن کھولا اور ٹرک میں کود پڑا ایک زور دار دھماکا ہوا اور ہم بے ہوش ہوگئے میجر رحیم پھر گویا ہوا میںنے آنکھیں کھول کر دیکھا بھارتی وفد ہماری دھرتی پر قدم رکھ چکا تھا جس کی پیشین گوئی یوسف نے بہت پہلے کردی تھی کہ ہم ہتھیار ڈال دینگے16 دسمبر کو جنرل نیاز ی نے اپنا پستول جنرل اروڑا کے قدموں میں رکھ کر گویاپورا مشرقی پاکستان اس کے حوالے کر دیا۔

اس معرکے میں دشمن کی ایک گولی میری ٹانگ میں لگی اور تمغے کی نشانی وہ زخم آج تک نہیں بھرا بیساکھی ہمیشہ کے لیے میرا مقدر ہوگئی بالکل اُسی طرح جس طرح یہ سانحہ ہماری حب الوطنی کے ساتھ ایک ہیولے کی طرح چمٹ گیا ہے کہتے ہیں وقت بہت بڑا مرہم ہے جو بڑے سے بڑے گھائو کو مندمل کر دیتا ہے مگر جدائی کا یہ زخم آج بھی تازہ ہے میجر رحیم بیساکھی اُٹھا کر چل دیا مگر میں اس سوچ میں محو ہوگیا کہ ایک طرف یوسف خان تھا جس نے شیر میسور کی تقلید کی جبکہ دوسری طرف ہمار ا ایک کمانڈر تھا جس نے میرصادق کے کردار کو بھی مات دے دی۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک