حقیقت سے خواب تک

Dark Room

Dark Room

نیم اندھیرے کمرے میں پانچ افراد دائرے کی شکل میں زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ درمیان میں ایک بڑا سا کاغذ پھیلا ہوا ہے۔ لیکن اتنی حفاظت سے داخل کیسے ہونگے؟ ان میں سے ایک شخص نے گہرے سکوت کو توڑا۔ ابھی چیف آکے سمجھاتے ہیں ہاتھ سے کاغذ کی سلوٹیں درست کرنے والے نے پر اطمینان لہجے میں جواب دیا۔ سیلن ذدہ کمرے میں چھت سے لٹکنے والے اکلوتے کم پاور کے بلب کی روشنی میں بمشکل ہی ان افراد کے خدوخال پہچانے جانے کے قابل تھے۔ اچانک ہی کمرے کے اکلوتے دروازے پر نہایت ہلکی سی دستک ہوئی۔ سلوٹیں درست کرنے والا اٹھا اور دروازے کی کنڈی ہٹائی۔ سفید کپڑوں میں ملبوس اندر داخل ہونے والا تقریبا ً پینتالیس برس کا ایک بارعب شخص تھا۔ چہرے پر گھنی داڑھی شاطر آنکھوں کے ساتھ کچھ غیر مناسب ہی لگ رہی تھی۔ طوطے کی چونچ جیسی ناک اور باہر نکلی تھوڑی دیکھنے والوں پر دہشت طاری کرنے کے لیے کافی تھی۔

چیف کو دیکھ کر باقی چاروں افراد بھی اپنی جگہ سے اٹھے اور پرتپاک انداز میں گلے ملنے لگے۔ گرچہ اس کی لمبی ناک ملنے والوں کا بوسا لینے میں رکاوٹ ڈال رہی تھی لیکن کان کے نیچے اس نے چاروں کا بوسہ لیا اور خاموشی سے کاغذ کے قریب بیٹھ گیا۔ اس کی دیکھا دیکھی باقی سب بھی پہلے کی طرح دائر ے میں بیٹھ گئے۔ سوالیہ نظروں سے چیف نے کنڈی کھولنے والے کو دیکھا۔جی میں نے انھیں ابتدائی پلان کے متعلق تو آگاہ کر دیا ہے لیکن باقی آپ خود بتادیں۔ کنڈی کھولنے والے نے نظروں کا مفہوم بھانپتے ہوئے جواب دیا۔ ہلکی سی ہوں کے بعد چیف کی آنکھیں دوبارہ کاغذ پر جم گئی پھر کاغذ لگے بڑے دائرے پر انگلی رکھ کے وہ ان کو کچھ سمجھانے لگا۔ یہ میٹنگ تقریبا ً چالیس منٹ جاری رہی سب کو اپنی اپنی ذمہ داری سمجھانے کے بعد بغور سب کے چہروں کا جائزہ لیتے ہوئے بولا مجھے خود بھی انتہائی دکھ ہو رہا ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

یہ منصوبہ نہایت سوچ وچار کے بعد تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعے ہم اپنے تمام اہداف حاصل کرلیں گے۔ ہائی کمان سے بڑی تفصیلی بات ہوچکی ہے۔ کیا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ؟کافی دیر سے خاموش بیٹھے ایک نے پوچھا تو سب کی نظریں اس کی جانب اٹھ گئیں ۔ اتنی نظروں کی تاب نہ لا کر وہ اپنی صفائی خود ہی دینے لگا نہیں میرا مطلب ہے کہ اس کو نکال کر کاغذ پر دائرہ کی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا تو چیف کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی ۔ نہیں میرے جوان اس کے علاہ یہ منصوبہ ادھورا ہے۔ کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے چیف نے اٹھتے ہوئے انتباہ کیا۔ باقی سب بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور یکے بعد دیگرے دروازے کے ایک پٹ سے ہی نکلتے گئے۔

جمعہ کا دوسرا خطبہ جاری ہے۔ مسجد میں آج خلاف معمول نمازیوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ کچھ نمازی ابھی بھی پانی کے کھلے نلکوں سے عجلت میں وضو کررہے ہیں کہ دروازے سے یکے بعد دیگرے تین افراد داخل ہوئے۔ سفید کپڑوں میں ملبوس تینوں افراد نے اپنے اوپر مختلف رنگوں کی چادریں سجائی ہوئی ہیں ۔ گرچہ یہ تینوں اجنبی تھے مگر وضع قطع اور حلیے کی وجہ سے کسی نے بھی ان کو زیادہ قابل توجہ نہ سمجھا ۔سندھی اجرک والا شخص صفوں کو چیرتا ہوا دوسری صف میں موجود نمازیوں کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ باقی دونوں افراد کی نظریں اس کا تعاقب کررہی تھیں ۔اسی اثنا میں پیش امام نے نماز کی نیت باندھ لی اور باقی سب پیروی کرتے ہوئے نماز میں مشغول ہوگئے۔ خشو ع و خضوع سے بھرپور نماز کی ادائیگی کے بعد خطیب مسجد ایک اہم دینی مسئلہ پر تقریر کرنے لگے۔

زیاد ہ تر نمازیوں نے گفتگو کی جانب دھیان دینا گوارا نہ کیا اور جلدی جلدی گھروں کی راہ لینے لگے ان میں سے کچھ مسجد کے پچھلے دروازے پر لگے ایک دینی سٹال میں کتابیں اور عطر کی بوتلیں آگے پیچھے کرتے کرتے کھسک گئے۔ سٹال پر موجود نوجوان اتھل پتھل کی ہوئی چیزیں واپس اپنی جگہ پر رکھنے میں مصروف ہوگیا۔ خطیب نے
نمازیوں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے جوش خطابت بڑھا دیا لیکن کوئی خاص فائدہ نہ ہوا۔ یہ تینوں افراد اپنی اپنی جگہوں پر پورے غور سے یہ تقریر سنتے رہے ان تین کے علاوہ بیس بائیس کے قریب اور نمازی بھی یہ دینی تقریر پورے دھیان سے سن رہے تھے۔ کہ اچانک ہی مسجد کے باہر شور و غوغا شروع ہوگیا۔ شور کی آواز سن کر خطیب کی تقریر سے ناگواری اور غصہ چھلکنا شروع ہوگیا۔ اسی اثناء میں سندھی اجر ک والا شخص اٹھا اور چادر سے دونوں ہاتھ باہر نکالے تو دونوں ہاتھوںمیں خود کار آتشیں اسلحہ تھا۔

Worshippers

Worshippers

اس سے قبل کہ باقی افراد صورتحال کو کچھ سمجھتے اس شخص نے تاک تاک کر گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ اس کے اٹھتے ہی پچھلی صفوں والے بھی دونوں افراد اٹھے اور چادریں اتار پھینکیں۔ ان کے ہاتھوں میں دھاتی تار ٹائپ کے کوئی رول نما اشیاء تھیں۔ انھوں نے بیرونی دروازے کا رخ کیا اور ان لپٹی ہوئی تاروں نما چیزوں کو اپنے سے دور پھینکنے لگے۔ بچے کچھے نمازیوں کو ان کی حرکات کی سمجھ تو نہیں آئی لیکن وہ خطرے کو بھانپتے ہوئے دوڑے۔ کچھ افراد نے سیٹرھی کی طرف رخ کیا اور کچھ عقبی دروازے کی طرف۔ اجرک والے کی فائرنگ کا نشانہ بننے والے تقریباً سات افراد مسجد میں لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔ ان میں سے کئی جاں بلب تھے۔ لچھے دار بارودی تاریں جہاں بھی کسی دھاتی چیز سے ٹکراتیں آگ پکڑ لیتی۔ ایک مسجد کے اندر یہ تاریں پھینک رہا تھا دوسرا عقبی دروازے سے باہر نکلا اور پھر باہر سے بھی ایسی آوازیں آنا شروع ہو گئیں جیسے بجلی کی تاریں آپس میں ٹکرا جائیں کڑاکے کی آواز نکلتی ہے۔ اندر والے دونوں افراد اپنا کام ختم کرکے باہر کی طرف دوڑے۔

باہر گلیوں میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی اور لوگ آگ سے بچنے اور قیمتی مال و اسباب بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ چند منٹوں میں جاری رہنے والا یہ آگ و خون کا کھیل اپنے بھیانک اثرات چھوڑ گمنا م گلیوں میں نئے شکاروں کی تلاش میں چل نکلا۔ باہر لوگوں کا ایک جم غفیر اکھٹا تھا جو ایکدوسرے کو سزاوار اور قصور وار قرار دے رہے
تھے۔ بات اتنی بڑھ چکی تھی کہ لوگ ایک دوسرے پر آگ برسانے سے بھی دریغ نہیں کر رہے تھے۔ پولیس، فائر بریگیڈ، ایمبولینسز اور دیگر اداروں کے سائرنوں کی آوازوں سے کان پڑی آواز بھی نہیں سنائی دے رہی تھی۔ خطیب مسجد اپنی تقریر ادھوری چھوڑ کر حجرے کے ٹیلی فون سے معتبر ہستیوں کو ظلم کی یہ داستان سنا رہا تھا جو اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ فوری طور پر اپنی آمد کی یقین دھانی کر ارہے تھے۔

وسیع و عریض ڈرائنگ روم کے گداز صوفوں میں دھنسے افراد ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یونیفارم میں ملبوس ویٹر سب کی سائیڈ ٹیبل سے قیمتی مشروب کے آدھ خالی گلاس واپس اٹھا رہا ہے۔ ایک اور ویٹر بڑی سے ٹرے لیے سب کے سامنے بڑے مودب انداز میں پیش کر رہا ہے۔ کچھ تو گردن کے ہلکے سے اشارے سے ٹرے میں موجود چھوٹے چھوٹے کوفتوں کو کھانے سے معذرت کر رہے ہیں اور کچھ ٹرے کی سائیڈ میں سجی قیمتی لکڑی کی سلائیوں میں کوفتہ پرو کر منہ میں رکھ لیتے ہیں۔ بھینسے والے جسم والے موٹی توند کو خاطر میں لائے بغیر زیادہ سے زیادہ کھانے کے چکر میں ہیں۔ چھت پر لگے بیش بہا فانوس کی روشنی کانچ کے برتنوںسے ٹکر ا کر انھیں ہیرے کی طرح چمکا دیتی۔

چلو یہ مسئلہ تو حل ہوا۔ موٹی توند والے نے ہلتے ہوئے کہا۔ مگر دوکانوں کا مسئلہ تو جو ں کا توں ہے۔ سرکار اب بھی ان کا کرایہ بڑھانے پر بضد ہے اور خالی کرنے کے تو پہلے ہی جاری کر چکی تھی۔ شلوار قمیض اور واسکٹ پہنے شخص نے ٹشو سے اپنی عینک کا شیشہ صاف کرتے ہوئے کہا۔ شکل وصورت سے یہ کوئی تاجر لگ رہا تھا۔وہ پرانی باتیں ہیں اب سرکار دوکانیں خو د تعمیر بھی کرکے دے گی اور کرایے بھی نہیں بڑھائے گی اور جرمانے کے طور پر دوکانوں میں مال کے پیسے بھی دے گی۔ موٹی توند والے ہنستے ہوئے جواب دیا۔آپ کا بھی جواب نہیں لیکن ہمیں کیا ملا۔سامنے صوفے پر موجود ایک قراقلی ٹوپی والینے کاجو اور بادام کی ایک مٹھی بھرتے ہوئے کہا۔

مسجد کی تعمیر کے لیے جو فنڈ پچھلے برس آیا تھا آپ اس سے اپنے دونوں مدرسے مکمل کروا لیں ا ور لائبریری کے لیے جو رقم آئی ہے اسے جہاں مرضی خرچ کریں کیونکہ مسجد کے لیے مزید بڑی رقم کی میں نے بات کرلی ہے ۔ لائبریری اور باقی چیزوں کا سارا خرچ حکومت دے گی۔ یہ تو زیادتی ہے ساتھ والا شخص بھی بول اٹھا۔ کام سار ا ہم نے کیا اور ہمیں کیا ملا۔ آپ کی دونوں شرطیں کام سے پہلے ہی پوری کی جا چکیں ہیں۔ اس کے علاوہ نئی دوکانوں میں سے آدھی کے اندر آپ کو کاروبار کی پارٹنر شپ بھی دی جارہی اور اشاعتی فنڈز بھی براہ راست آپ کو دیا گیا پھر آپ کو کس بات پہ گلہ ہے۔ اب تو روز روز یہ منصوبہ بھی نہیں چلے گا ۔ آپ نے مطالبے بھی ایسے رکھ دیئے تھے۔ قراقلی ٹوپی والے نے بیچ میں لقمہ دیا۔ نہیں ہم اپنا مزید حصہ روشنیوں کے شہر کی چند روشنیاں گل کرکے برابر کرلیں گے آپ بے فکر رہیںساتھ والے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔

آپ لوگ یونہی آپس میں بندر بانٹ کرتے رہیں گے یا ہمارے بارے میں بھی کچھ بتائیں گے۔ سڈول جسم والے نے اپنی مونچھوں کے نیچے دائیں انگلی پھیرتے ہوئے کہا۔ آپ کا نذرانہ آپ کی بیوی کے اکائونٹ میں ٹرانسفر ہو چکا ہے۔ بس کام جاری رکھیں جو جو ہاتھ میں آئے ہم سے ملوائیے گا ضروراور پکا ہاتھ ڈالیے گا۔ اچھا میں چلتا ہوں مجھے کسی جگہ پہنچنا ہے چیف منسٹر آرہے ہیں۔ مونچھوں والے نے کھڑے ہوتے ہوئے کہااور سب کو گڈ لک کرتا باہر نکل آیا۔

Karachi

Karachi

یہ وہی سیلن ذدہ کمرا ہے جس میں پانچوں افراد پھر ایک کاغذ پھیلائے غور و فکر کررہے ہیں اور چیف کا منتظر کاغذ کھولنے والا انھیں ابتدائی منصوبے سے آگاہ کر رہا ہے۔دوہرے قتل کے اس منصوبے کا پہلا ٹارگٹ کراچی کا ایک عالم دین اور دوسرا نشانہ لاہور تھا۔ پتہ نہیں کیوں یہ کہانی پڑھتے پڑھتے دس محرم کو راجا بازار اور کراچی و لاہور میں پیش آنے والے واقعات یاد آگئے۔ فرقہ واریت کا وجود ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کہانی کے کرداروں میں کھو گئی۔

تحریر: سیدہ گل رضوی