آج جس طرح اسلام سے لوگ بے راہروی کا شکار ہیں اس ہی طرح وہ قران و حدیث تاریخ سے بھی نابلد ہیں انکی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جہا ں پہ یہ صبح سویرے اٹھ کے تلاوت قران مجید کرتے اسکی جگہ اب ورزش نے لے لی جب عمر چھوٹی ہوتی اس وقت انسان قران مجید کر تعلیم سیکھتا اب وہ مقام ABC نے لے لیا اس طرح زندگی اپنے زوال کو پہنچتی گئی یہاں تک کہ انسان تعلیم کی عمر سے گزر کر عملی زندگی کی ابتداء کر بیٹھا ور ان وہ تمام معالات علمی ختم ہو کہ رے گئے۔ جو اس نے بچپن میں سیکھا وو اسکو ہی علم کل سمجھ کہ اپنی عقل کے گھورے دوڈانے لگا اسکا سب سے بڑا جو نقصان ہوا وہ یہ ہوا کہ نہ تو قران و حدیث کو پڑاھا اور نہ ہی سکیھی کی کوشش کی جو دوران تعلیم علم کے نام سے کوری استاذہ سے سیکھا اسکو ہی مبداء علم سمجھ کہ اس پہ عمل پیر ہو گیا اور اساتذہ کا جو عالم ہیں وہ ہم میں سے کسی کے سامنے وشیدہ نہیں کہ اکثر اساتذہ کو دین کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے۔
وہ سکھائیں گے کیا اور اساتذہ بھی اس حد تک بے باک ہوگئے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے باوجود بھی اسلام کے خلاف خالی الذہن بچوں کے ذہن میں ایسے شکوک و شبہات پیدا کرنا کہ جو کسی بھی طرح کا فور نہ ہو سکیں ان ہی مسائل میں سے ایک بہت اہم مسئلہ مقام عورت کا ہے کہ عورت کو اسلام نے کم جب کہ اسلام کے علاوہ روشن خیالی نے پورا حق دیا ہے آج ہم نے اسلام سے قبل جو عورت کو مقام حاصل تھا اور جو بعد اسلام حاصل ہوا اس پہ گفتگو کرنی ہیں ایک جملہ تو ہر کی زبان پہ عام ہیں کہ عرب اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیا کرتے تھے اس پہ کتاب اللہ ناطق و گواہ ہے چناچہ اللہ کا کلام ارشاد فرماتا ہے کہ ”وکذلک زین لکثیر من المشرکینقتل اولادھم شرکائھم لیردوہ مولیلبسوا علیھم دینھم”ترجمہ (سورة انعام آیت١٣٧)مگر آج اسکی وجہ اصل جانتے ہیں کہ اس کی ابتداء کہاں سے اور کیسے ہوئی علامہ الوسی نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ” و قیل السبب فی قتل البنات ان النعمان بن المنذر اغار علی قوم فسبی نسائھم و کانت فیہن بنت قیس بن عاصم ثم اصطلحوا فارادت کل امراة منھن عشیرتہاغیر ابنة قیس فانہا ارادت من سباہا فحلف قیس لا تولد لہ بنت الا و ادہا فصار ذلک سنة فیما بینہم ”ترجمہ بیٹیوں کے قتل کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے۔
نعمان بن منذر نے ایک قوم پہ ڈاکہ ڈالا انکی عورتوں کو قید کر کے لے گیا اور ان عورتوں میں قیس بن عاصم کی ایک بیٹی تھی پھر ان کے درمیان صلح ہو گئی ان سب عورتوں نے اپنے خاندان میں جانے کا ارادہ کیا سوئے بنت قیس کے اس نے اس گروہ کے ساتھ رہنے کا ارادہ کیا تو قیس نے قسم کھائی کہ کہ جو بھی بیٹ اسکا پیدا کیا گیا وہ اسکو دفن کر دوںگا پس اسکے بعد یہ طریقہ جاری ہو گیا (تفسیر آلوسی زیر آیہ سورہ انعام ١٣٧) اسی طرح ایک اور بھی ان میں یہ طریقہ کار روا تھا کہ جب انکی کو ئی حاجت پوری ہونے کی منت مانتے کہ اگر ہماری یہ مراد پوری ہو گئی۔
تو بھی ہم اپنے اولاد کی قربانی کریں گے اور علامہ نے ایک وجہ بتاتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ”انھم کانوا ینذر احدہم اذا بلغ بنوہ عشر ة نحر واحد منہم کنا فعلہ عبد المطلب فی قصتہ المشہورہ والیھا اشار صلی اللہ علیہ و سلم بقولہ انا ابن الذبیحین”ترجمہ(ایضا ) اب عرب کی حالت عرض کی جا چکی کہ جہاں پہ انسانی اقدار اس حد تک پہچ گئی ہو کہ انسان کو صرف انسان ہونے کی بناء پہ قتل کر دیا جائے لڑکی جس کو آ ج کا مغربی میڈیا اس مقام پہ لے گیا ہے کہ اسکی عزت کو سر بازار فروخت کر رہا ہے اسکی دیکھا دیکھی آج ہمارے ممالک میں بھی دو روپے کی شیمپو کی پیکنگ پہ بھی اس کی تصویر ہے۔
اسکو اچھا مقام دیا کہ اسکی عزت کو نیلام کر دیا جائے ان حالات میں جب کہ اس عورت کا قتل عام کیا جاتا رہا اس عورت کا صرف عورت ہونا ہی جرم تھا اگر اس عورت کو کسی نے مقام دیا تو وہ محمد مصطفی ۖ نے دیا ارے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والو اسلام سے پہلے تو لوگ اپنے اولاد کو پیار دینا بھی معیوب سمجھتے تھے اس ہی پہ میں امام محمد بن اسماعیل کی ایک تحریر کردہ ایک حدیث بیان کرتا ہوں کہ”ان ابا ہریرةرضی اللہ عنہ قال قبل رسول اللہ الحسن بن علی و عندہ الاقرع بن حابس التمیمی جالسا فقال الاقرع ان لی عشرة من الولد ما قبلت منہم احد فنظر الیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و لسم ثا قال من لا یرحم لا یرحم ”ترجمہ (بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبیلہ و معانقتہ)یہ نہیں کہ یہ صرف انکا ایک ذاتی فعل ہو بلکہ یہ عرب کا جہلانہ طریقہ کا ر تھا وہ اسکو فخر بھی سمجھتے تھے۔
Bukhari Sharif
اس کی ایک اور نظیر اس ہی باب میں امام بخاری نے نقل فرمائی ” عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت جاء اعرابی الی النبی صلی اللہ علیہ و سلم فقال تقبلون الصبیان فما نقبلہم فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم او املک لک ان نزع اللہ من قلبک الرحمة ”ترجمہ (بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبیلہ و معانقتہ) اب اس حدیث میں اعرابی کے تذکرے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ بچوں کو چومنا بھی معیوب جانتے تھے مگر قربان جاو اس فعل نبوی ۖ پہ جنہوں نے اولاد کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک کا درس دیا بلکہ یہاں تک بھی فرما دیا کہ ”عن ابن عباس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من کانت لہ انثی فلم یئدہا ولم یہنہاولم یوثر ولدہ علیہاقال یعنی الذکور ادخلہ اللہ الجنة”ترجمہ (ابو داودکتاب الادب باب فی فضل من عال یتامی ) یہاں تک تو اللہ کے رسول ۖ نے وضاحت فرما دی کہ جو اس اپنی ذکور اولاد کو انثٰی اولاد پہ ترجیح نہ دے ۔
اس کو اللہ تبارک و تعالی جنت میں داخلہ عطا کرے گا مگر ایک اور حدیث ایسی عرض کرتا ہوں کہ جس سے اس بات کا اندازہ لگانا بہت ہی آسان و سہل ہو جائے گا کہ ”عن انس بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من عال جاریتین حتی تبلغا جاء یوم القیمة انا و ھو و ضم اصانعہ ”ترجمہ (مسلم کتاب البر والصلہ و لاداب باب فضل الاحسان الی البنات) رو کائنات کی بلند و بالا پہاڑیوں یہ و بتاو کہ بڑے بڑے نامور لوگوں کو دیکھا ہزاروں لوگوں نے اس دنیا کو اپنے وجود سے آباد کرکے اسکو الوداع کہہ گئے مگر یہ تو بتاو کیا ایسا بھی کوئی قانو ن دان یا سیاست دان گزرا جس نے عورت کو یہ مقام عطا کیا ہے۔
روشن خیال جس نے اس صنف نازک کی وقعت و منزلت کو سمجھا اور اسکو اس کے مقام کی معراج تک پہچانے کی سعی کی ہو تو یقینا ایک ہی جواب آئے گا کہ سوائے رحمة اللعلمین ۖ کے کوئی نہیں تو اے آج کی نام نہاد روشن خیا ل ذہنیت کے مالک لوگوں خدا رہا انصاف سے کام لو کہ جس نے تمہاری ماںبہن بیٹی کو سسکتی ہوئی دنیا میں وہ مقام دے گا کہ آج عالم اغیا ر کے پاس بھی تسلیم قلبی کے سواء کو ئی چارہ نہیں مگر وہ اسلام و دین سے خالی و عاری لوگ اس بات کا اظہار کرکے اپنے حیثیث پہ کلہاڑی نہیں چلانا چاہتے کیونکہ انکو کوئی کردار ہی نہیں وہ کوئی اہل علم نہیں بس ایک نام ہے جو کہ اغیار کی وجہ سے پھیلا ہوا ہے۔
ورنہ بتائے زمانہ کہ کس نے عورت کو یہ مقام دیا کس نے بیٹی کو اپنی آنکھوں کی تھنڈک قرار دیا اس پہ خرچ کئے ہوئے مال کی تعریف بیان کی چنانچہ امام ابن ماجہ نے تحریر فرمایا کہ ”عن سراقة بن مالک ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال ادلکم علی افضل الصدقة ابنتک مردودةالیک لیس لہاکاسب ”ترجمہ سراقہمبن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ اللہ کے رسول ۖ نے فرمایا کہ میں تمہیں افضل صدقہ نہ بتائو وہ اس لڑکی پہ صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف لوٹائی گئی اور اس کا کوئی کمانے والا نہیں (ابن ماجہ کتاب الادب باب بر الوالدین ) جو مقام عورت کو جو ذات مصطفی ۖ نے دیا وہ کوئی اور نہ دے سکا کیونکہ ہر کائنات عالم کا شخص اس کو اپنے پہ بوجھ سمجھتا ہے اور اس ہی وجہ سے اس صنف نازک کو بجائے گھر میں عزت کے ساتھ رکھنے کہ کاروبار کا ذریعہ بنا دیا مگر رسول اللہۖ نے یہ تعبیر بتائی کہ کسی عورت کو گھر سے باہر جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آسکتی اس لئے ان بہنوں سے عاجزانہ عرض ہے جو کہ اپنے آپکوروشن خیال تصور کرتے ہوئے اسلام کے ہرزہ سرائی کرتی ہیں۔
خدا رہا اسلام سے پہلے اور بعد اسلام ملنے والی حیثیت کو مد نظر رکھیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ جو عورت کو مقام اسلام اور پیغمبر اسلام ۖ نے دیا اگر کل کائنا ت مل کے بھی اس عورت کو یہ مقام دینا چاہتی کبھی نہ دے سکتی جو کہ مصطفیۖ کے تربیت خاص نے عطا کردیااس لئے ہمیں چاہے کہ ہم آج اپنی عقل کا قبلہ بجائے عالم اغیار یا یہود و ہنود کو بنانے کے مکین گنبد خضرائۖ کو بنائے تاکہ ہم دین و دنیا میں کامیاب و کامران ہو سکیں