وقتِ رحلت حضرت خالد بن ولید کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پاس کھڑے تیماردار صحابی نے کہا ”خالد ! کیا موت کا خوف ہے ”؟۔ حضرت خالد بن ولید نے بچشمِ نم کہا”موت کا کسے خوف کہ یہ تو بَر حق ہے۔ میں تو اِس لیے رو رہا ہوں کہ میں نے شوقِ شہادت میں دشمن کی صفوں میں گھُس گھُس کر حملے کیے لیکن شہادت نصیبہ نہ ٹھہری ”۔لا ریب ایک مومن کا مطلوب و مقصود ہی شہادت ہوتا ہے اور مُلّا عبد القادر شہید کا مطلوب و مقصود بھی یہی تھا۔
آج سولہ دسمبر ہے۔ یہ دن جب بھی آتا ہے میری عمر کے لوگوں کو بری طرح اُداس کر دیتا ہے۔ یہ وہی دن ہے جب ہم نے حضرتِ اقبال کے خوابوں کو چکنا چور کر کے حضرت قائدِ اعظم کا احسان اتار پھینکا۔ یہ وہی دن ہے جب جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں اپنی غیرتوں کے تمغے نوچ کر جنرل اروڑا کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ یہ وہی دن ہے جب 90 ہزار عاشقانِ پاکستان پا بہ زنجیر ہوئے اور مجید امجد مرحوم نے لکھا ”ریڈیو پر اِک قیدی مجھ سے کہتاہے۔۔ میں زندہ ہوں۔ سُنتے ہو ! میں سلامت ہوں ”۔ لیکن نسلِ نَو کو تو شاید پتہ بھی نہیں ہو کہ یہ سانحہ کب، کیوں اور کیسے رونما ہوا، البتہ اِس سانحے کے ذمہ داروں میںبھٹو، یحیٰ اور شیخ مجیب الرحمٰن کا نام ہی لیا جاتا ہے۔ بھٹو پھانسی پہ جھولے، شیخ مجیب الرحمٰن اپنے پورے خاندان سمیت (سوائے شیخ حسینہ واجد کے) قتل ہوئے اور یحیٰ گمنامی اور ذلت کی موت مرا۔
مُلّا عبد القادر کی شہادت نے دو لخت ہوتے پاکستان کے زخموں کو کرید کے رکھ دیا ۔ بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے شاید مُلّا عبد القادر کی پھانسی کے لیے ماہِ دسمبر کا انتخاب کیا ہی اِس لیے تھا کہ وہ ہمارے زخموں کو تازہ کر سکے لیکن اُس وحشی عورت کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ یہ زخم بھرے ہی کب تھے جو ”ہرے”ہوتے ۔
مُلّا عبد القادر شہید کو میں نے کبھی دیکھا، نہ ملاقات ہوئی اور سچ تو یہ ہے کہ میں نے الیکٹرانک میڈیا کی بدولت پہلی بار اُنہیں ٹی۔ وی سکرین پر دیکھا لیکن میں تو اتنا جانتا ہوں کہ وہ حضرت ابو الاعلیٰ مودودی کے فکر سے متاثر تھے اور میں بھی۔ مجھے مُلّا عبد القادر شہید کی موت پر دُکھ ہے، نہ صدمہ البتہ فخر ضرور ہے کیونکہ ربّ ِ کردگار نے حکمت کی عظیم ترین کتاب میں یہ درج کر دیا ہے ”شہید کو مُردہ مت کہو، وہ زندہ ہے اور اپنے ربّ کے ہاں سے خوراک حاصل کر رہا ہے البتہ تمہیں اِس کا ادراک نہیں”۔ اِس لیے مجھے فخر ہے کہ اب بھی عالمِ اسلام میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کا مطلوب و مقصود محض اور محض شہادت ہے۔
پھانسی کی رات بھی مُلّا عبد القادر شہید کے سامنے سیّد مودودی کی تفہیم القرآن کھلی تھی جس میں درج تھا ”غم نہ کرو، افسردہ نہ ہو، تُم ہی غالب رہو گے”۔ اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ غالب تو مُلّا عبد القادر ہی رہا اور یزیدیت کے علمبردار ایک دفعہ پھر بد ترین ہزیمت سے دو چار ہو ئے۔ پوری دنیا یزیدیت کے علمبرداروں پر لعن طعن کر رہی ہے اور مُلّا عبد القادر شہید کا نام زبان پر آتے ہی عقید توں بھری سرشاری پورے وجود کو گھیر لیتی ہے۔ مجھے بدر کا میدان یاد آ رہا ہے جب دینِ مبں کی طاغوت سے پہلی جنگ ہوا ہی چاہتی تھی۔ ایک صحابی آقا ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، مٹھی میں چند کھجوریں پکڑی ہوئی تھیں، عرض کیا ”یا رسول اللہ ۖ ! کیا جنت میں اِس سے بہتر کھجوریں ملیں گی ”؟۔ آقا ۖ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ”تحقیق کہ اِن سے بدرجہا بہتر”۔ تب اُس صحابی نے کھجوریں پھینک کر کہا ”اب جنت کی کھجوریں ہی کھاؤں گا”۔
Heaven
جنت کی کھجوریں کھانے کا شوق اُس صحابی کو رُتبۂ شہادت سے سرفراز کر گیا۔ مُلّا عبد القادر شہید تو جنت کی خوراک سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن شیخ حسینہ واجد کے حصّے میں کیا آیا سوائے ذلت و رسوائی کے ؟۔اِس کے باوجود بھی میرا ایمان ہے کہ قدرت حسینہ واجد سے ضرور انتقام لے گی۔ یہ بجا کہ ربّ کی رسی دراز ہے لیکن اُس کی پکڑ بھی اُتنی ہی مضبوط۔ انشاء اللہ ایک دِن ایسا ضرور آئے گا جب یہی کٹہرا ہو گا، یہی پھانسی کا پھندا اور یہی حسینہ واجد۔ بس انتظار کیجئے تھوڑا انتظار۔
سولہ دسمبر کے سانحے کے پیچھے کئی عوامل تھے جن پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ اِس مختصر سے کالم میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ اِس سانحے کی وجوہات پہ تبصرہ کیا جائے البتہ جماعت اسلامی کی ”البدر” اور ”الشمس” کے خلاف آگ اُگلنے والے سیکولر تجزیہ نگاروں سے یہ سوال ضرور کیا جا سکتا ہے کہ جماعت اسلامی کو پاکستان مخالف جماعت کہنے والو ! تُم اُس وقت کہاں تھے جب اسی جماعت کے نوجوان پاک فوج کے کندھے سے کندھا ملا کر قائدِ اعظم کے پاکستان کو بچانے کے لیے قُربانیاں دے رہے تھے ؟ مُلّا عبد القادر شہید تو پھانسی کی رات بھی اپنے آخری خط میں یہ لکھ گئے ” اللہ پاکستان کے مسلمانوں اور میرے بنگلہ دیش کے مسلمانوں پر آسانی فرمائے اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو ناکام کر دے” لیکن ہمارے سیکولر دانشوروں کو تو خیر کیا توفیق ہوتی ہے۔
حاکمانِ وقت بھی مہر بلب اور اِس سانحے کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے رہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ مکتی باہنی اور بھارتی افواج کے خلاف سینہ سپر ہونے والے غیر بنگالی کس کی جنگ لڑ رہے تھے ؟۔ کیا پاکستان بچانے کی؟۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر بنگلہ دیش کے کیمپوں میں بد ترین زندگی گزارنے والے بنگلہ دیشی ہیں یا پاکستانی؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر بنگلہ دیش میں جاں بحق ہونے والے ہمارے فوجی جوان شہید تھے اور لا ریب وہ شہید ہی تھے تو پھر البدر اور الشمس کے جوان شہید کیوں نہیں؟۔ اگر وہ بھی ”شہدائے پاکستان” ہی ہیں تو پھر اُن کے خلاف دراز ہوتی زبانوں کو لگام دینے والے کہاں جا سوئے ہیں؟۔ اور اُن شہداء کے ورثاء کو محبانِ پاکستان قرار دے کر انتہائی عزت و احترام سے پاکستان کیوں نہیں لایا جاتا؟۔
وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے 1992ء میں بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم خالدہ ضیاء صاحبہ کے ساتھ اسلام آباد میںکی گئی مشترکہ کانفرنس میں بنگلہ دیش میں محصور ہونے والوں کو ”محصورینِ پاکستان” قرار دے کر پاکستان لا کر پنجاب میں آباد کرنے کا وعدہ فرمایا تھا جو تا حال ایفا نہیں ہوا ۔ 1988ء میں رابطہ عالمِ اسلامی اور حکومتِ پاکستان نے ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے جس کے مطابق اِن محصورین کو پاکستان لا کر آباد کرنا تھا لیکن وہ معاہدہ بھی تا حال تشنۂ تکمیل ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے میاں محمد نواز شریف کو ایک دفعہ پھر دو تہائی اکثریت کے ساتھ پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ سے نوازا ہے۔ کیا وہ اپنے موجودہ دَورِ حکومت میں اپنا 1992ء میں کیا گیا وعدہ ایفاء کریں گے؟۔ یاد رہے کہ ہم نے گزشتہ کئی عشروں سے لگ بھگ 20 لاکھ افغانیوں کو اپنے سینے سے لگا رکھا ہے ۔اُن میں سے بیشمار ایسے ہیں جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ بھی موجود ہیں اور وہ یہاں اپنا کاروبار بھی جمائے بیٹھے ہیں اور جب جی چاہتا ہے بم دھماکے بھی کر دیتے ہیں۔
پاکستانی حکومت خوب جانتی ہے کہ کتنے ہی غیر ملکی دہشت گرد ہیں جو انہی افغانیوں کے ہاں پناہ لیتے ہیں لیکن حکومتِ وقت نے پاکستان پر بننے والے اِس بوجھ پر کبھی توجہ نہیں دی اور نہ ہی کبھی ایسی کوئی کوشش ہوئی ہے کہ اِن زبردستی کے ”مہمانوں ” کو اُن کے اپنے ملک میں بھیجا جا سکے البتہ اڑھائی لاکھ محصورینِ بنگلہ دیش شاید ہماری معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہیں جو چار عشروں سے زائد گزر نے کے باوجود تا حال پاکستانی کہلانے کے حق سے محروم ہیں۔