عظیم لوگ تاریخ میں اپنے کردار کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں اور ہمیشہ بلندیوں پر رہتے ہیں۔ عبد القادر ملا تم پاکستانی تو نہ تھے !مگر تم آج ہم پاکستانیوں کو نیچا دکھا گئے۔ جو مقام پاکستانی حاصل کرنے سے ڈرتے ہیں۔ وہ تم نے کس جذبے کے تحت حاصل کر دکھایا؟ شائد اسلام کا جذبہ اور امت ِ مسلمہ کی محبت نے تم سے اتنا بڑا کام لے لیا۔ تمہارے اس فعل پرمیرے اور ہم سب کے آقا حضرت محمد مصطفٰے ۖجنت الفردوس کے دریچوں میں مسرور ہو رہے ہونگے۔ میر اجماعتِ اسلامی سے نہ تو تعلق تھا نہ ہے، مگر پھر بھی میں کہتا ہوں کہ کاش اس عظیم انسان کے قدموں کی دھول ہی مجھے مل جاتی تو میں اُس کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنا لیتا۔
ایسی عظیم سعادت ہم کم نصیبوں کے مقدر میں کہاں ؟عبد القادر ملا کی عظمت کو تاریخ ہمیشہ سلام کرتی رہے گی اور حسینہ واجد جس کو میں مسخینہ (مسخ شدہ چہرہ) کہوں گا۔ اسلام سے برگشتہ یہ عورت لگتا یہ ہے کہ میر قاسم، میر جعفر یا کسی ہندو سفاک کی اولاد ہے۔ جب ہی تو اس کو اسلام اور اسلامی شعا ئر سے پرلے درجے کی چڑ ہے۔ اس نے اسلامی جمہوریہ بنگلہ دیش سے اسلام کے نام کو خارج کر دیا اور بنگلہ دیش سے تمام شعائرِ اسلام کو مٹانے کا نا صرف عظم ظاہر کیا ہے بلکہ ایک ایک کر کے وہ ان سب کو مٹاتی بھی رہی ہے۔ ایسے لوگوں کا نا صرف نام و نشان مٹ جاتا ہے بلکہ تاریخ میں بھی وہ ہمیشہ ذلیل و خوار ہی ہوتے رہتے ہیں۔ اپنے خاندان کے انجام سے ہی ان کو عبرت حاصل کر لینی چاہئے تھی۔ آج بنگلہ دیش پر را کے ایجنٹو کے ذریعے حکمرانی ہو رہی ہے۔
جو در حقیقت یہود و نصارا کے بھی کھلے ایجنٹ ہیں انہیں محبِ وطن نبگالیوں، مسلمانوں اسلام اور شعائر اسلام سے کیا لینا دینا ہے؟ میں مسز واجد سے سوال کرتا ہوں کہ ا گر تمہارے بنگلہ دیش کو کوئی توڑنے کی کو شش کریگا تو بحیثیت بنگلہ دیشی اُس کے خلاف تمہارا کیا ردِ عمل ہوگا میڈم؟ ذرا گریبان میں جھانک کر اس سوال کا جواب مجھے اور پوری دنیا کو دیددیں. مسلمانوں کے دل تو بہت بڑے ہیں۔ انہیں آزمانے کی کوشش مت کرو!
وہ بہاری جنہوں نے آج تک بنگلہ دیش کی شہریت قبول نہیں کی ہے اور وہ آج بھی پاکستان کے گن گاتے ہیں کیا تم جیسے سفاک اُن کی بھی پوری نسل کُشی کر دیں گے؟جبکہ شہید عبد لقادر ملا تو بنگلہ دیش کے مستند بنگالی شہری تھے۔ اُس عظیم بنگلہ دیشی کے نا حق قتل کا مقدمہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں چلایا جانا چاہئے۔ کیونکہ ہتھیار ڈ النے کی دستاویز میں غالباََیہ بھی درج ہے کہ اکہتر کی جنگ کے کسی شخص پر بھی جنگی جرائم کا مقدمہ کسی صورت میں بھی قائم نہیں کیا جائے گا۔ تو پھر سیکولر اور برہمن ذہنیت کے ان قاتل ججوں نے اس عظیم انسان کو پھانسی گھاٹ پر کیونکر شہید کرنے کا غیر منصفانہ اور ظالمانہ فعل سر زد کیا؟؟؟
Jamaat Islami
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما شہید عبد القادر ملانے اپنے وطن پاکستان کا دفاع ہندوستانی ایجنٹو ں کے خلاف کیا تھا! کیا یہ اُس مظلوم کا گناہ تھا؟ اُس وقت اُن کی پاکستانیت میں کوئی کلام نہ تھا آج اُن کی بنگلہ دیش میں کوئی کلام نہ تھا۔ مسز واجد آج اگر بنگلہ دیش میں تمہارے باپ جیسا کوئی غدار پید ہو جاتا تو عبد القادر ملا اُس کے خلاف بھی سینہ سپر ہو جاتے!ظالمو ، تم نے ایک محب وطن بنگالی کی جان اپنے جہنمی خاندان کے انتقام میں لے لی. جس نے بر صغیر کے مسلمانوں کا شیرازہ اپنے ہندو آقائوں کے کہنے پر بکھیر کے رکھ دیا تھا شرم کرو ڈوب مرو! اگر تم لوگ ایسے محبِ وطن لوگوں کو مارنے سے نہ باز آئے تو یاد رکھو تم جیسے سفاکوں کی وجہ مشرقی بنگال تباہی کی آگ میں جھلستا رہے گا۔
آج پورے بنگال میں عبدالقادر ملا کے نا صرف چرچے ہیں بلکہ بنگلہ دیش تو اس آگ میں جھلس بھی رہا ہے اور مبصرین کا خیال ہے کہ یہ آگ پھیلے گی کم نہیں ہوگی.. سفاک منصفوں اورسفاک قاتلوں کے ہتھوں پر اس شہید اعظم کا لہو جھم جھما رہا ہے۔ تمہیں کیا اپنے انجام کی فکر نہیں ہے. کل تم لوگوں کو بھی اِن شہیدوں کے ناحق قتل کی پاداش میں قدرت نے پکڑ لیا تو تم جیسے ظالموں کا ٹھکانہ جہنم کے سوائے کچھ نہ ہو گا، تم سب کے لئے تویہ عبرت کا مقام ہونا چاہئے۔ رب العزت جب کسی کی طنابیں کھینچنا چاہتا ہے تو اُسے خود بخود ایسے ظالمانہ کاروبار میں الجھنے دیدیتا ہے۔
میری تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ یہ کیسی کینگرو کورٹس ہیں اور ان میں بیٹھے یہ کیسے منصف ہیں جنہوں نے صرف ایک فاحشہ عورت کی جھوٹی گواہی پر آج 42 سال کے بعد ایک محبِ وطن اور نیک نام بنگالی کو سولی پر چڑھا کر اپنی عاقبت کے لئے جہنم کا پروانہ حاصل کر لیا ہے۔ عبد القادر ملا کوئی ایک بنگالی نہ تھا بلکہ یہ ایک عظیم تحریک کا نام تھا۔بنگال کی مسلم تاریخ تم ایسے جابروں کے ایجنٹو اور جابروں سے پوری طرح واقفیت رکھتی ہے۔ یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مشرقی پاکستان کو توڑنے اور برِ صغیر میں مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر نے والے تمام کر دار ذلیل و رسوا ہوکر ہو کر اس عالمِ فانی سے رخصت ہوے ہیں۔ آج چاہے تینوں ملکوں میں اُن کے لئے کتنا ہی شہید شہید کا شور مچاتے پھریں!! وہ تو اپنے حقیقی انجام کو قدرت کے انتقام کے ذریعے پہنچ چکے ہیں۔
مسز واجد کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آج بھی پکے ایمان والے بنگالی مسلمان، بنگلہ دیش و پاکستان کے اتحاد و کنفیڈریشن پر ہم نااہل پاکستانیوں سے سوالات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قریب قریب ایسے بنگالی مسلمانوں کی تعداد بنگلہ دیش کی مسلمان آبادی میں آدھے سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ یہی خوف اسلام سے برگشتہ ان لوگوں، ان کی قوتوں اور ان کے گماشتوں کو کھائے جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ عبد القار ملا جیسے سینکڑوں لوگوں کی شہادتوں کی شکل میں مسلسل سامنے آرہا ہے….
موجودہ زمانے کی مثال کم از کم نیلسن منڈیلا کے کردار کو ہی یہ نا اہل بنگالن اوراس کے کینگرو کورٹ کے جج ذہن میں رکھ لیتے۔ کہ اُسکے ملک اور اُس کے لوگوں کے ساتھ سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کیا کیا کچھ نہیں کیا تھا، اور نیلسن منڈیلا نے اُن کی شکست خوردگی کے بعد کیا رویہ ان ظالم قوتوں کے خلاف اختیا کیا؟ تمہارے اندراور تمہارے پالتووں کے اندر ذرہ برابر بھی حیا ہوتی تو تم دریائے میگھنا میں ڈوب مرتے! تمہارے جیسے بے ضمیروں کی ہمارے ہاں بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ایک ہوئی جہازیئے کو میڈیا پر یہ کہتے بھی سُناگیا کہ اگر عبد القادر ملا کو پاکستان سے محبت تھی تو وہ پاکستان کیوں نہیں آئے؟ان سے معلوم کیا جانا چاہیئے تھا کہ تم اور تمہارے گماشتوں نے کتنے بہاریوں کو پاکستان آنے دیا ؟ وہ تو آج بھی پاکستان کے نام پر ہی زندہ ہیں اور پاکستان کے نام پر آج 42 سال کے بعد بھی اذیتناک زندگی گذار نے پرمجبور ہیں۔ جو ایک بنگالی مسلمان کو طعنہ دے رہے ہو کہ وہ پاکستان کیوں نہیں آگئے۔
موصوف مزید فرماتے ہیں کہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے ہمیں اس پر بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے تو یہ سُن رکھا ہے کہ فورسز کے لوگوں سے بڑا کوئی محب وطن نہیں ہوتا ہے!!! یہ کیسی حب الوطنی ہے کہ پاکستان کے نام پر شہید کیئے جانے والے ایک عظیم بنگالی مسلمان کو پاکستان نہ آنے پر مطعون کیا جا رہا ہے۔
پھانسی گھاٹ کا شہید ملا عبد لقادر جو ایک مُحبِ وطن بنگالی مسلمان تھے۔ انہیں پاکستان سے محبت کرنے والے تا قیامت فراموش بھی کرنا چاہیں گے بھی تو نہ کر سکیں گے۔ اس عظیم جنت کے شہسوار نے ہم پاکستانیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جس کو پوری پاکستانی سلیوٹ پیش کرتی ہے۔ جس کی شہادت کو قیامت تک یاد رکھا جائے گا۔
Pakistan
پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com