عبدالقادر ملا کی پھانسی

Mullah Abdul Qadir

Mullah Abdul Qadir

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما عبدالقادر ملا کی شہادت پر پوری پاکستانی قوم میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے،ان کا جرم صرف اور صرف پاکستان سے محبت تھا۔ بنگلہ دیش اس قابل نہیں کہ وہ عبدالقادر ملا کو پھانسی دیتا اس افسوسناک واقعہ کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہے، بھارت میں بی جے پی، کانگریس، بجرنگ دل اور انڈیا کے متعصب ترین ہندو خوفزدہ و بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کو بنگلہ دیش میں پھانسیاں دلوائی جارہی ہیں۔ جس دن عبدالقادر ملا کی پھانسی کا فیصلہ ہوا اس سے کئی ہفتہ پہلے سے پاکستان میں بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کادرجہ دینے کیلئے بھرپور مہم چلائی جاتی رہی۔ عبدالقادر ملا جنہیں پاکستان سے محبت کے جرم میں پھانسی دی گئی’ حکومت کا اس پر خاموشی اختیار کرنا انتہائی افسوسناک امر ہے۔ امریکی دبائو کی وجہ سے پاکستانی سیاستدان بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے، سافٹ بارڈر، ویزہ پالیسی میں نرمی اور بارڈر پر مشترکہ پاور پلانٹ لگانے کی باتیں کرتے ہیںلیکن بھارت پاکستان کا نام تک سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔

عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد پاکستان بھر میں جماعت اسلامی اور جماعة الدعوة کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا۔ لاہور، ملتان، راولپنڈی، کراچی، حیدرآباد، پشاوراور کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور عبدالقادر ملا کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ احتجاجی مظاہروں اور غائبانہ نماز جنازہ کے اجتماعات میں زبردست جذباتی ماحول دیکھنے میں آیا۔ شرکاء کی طرف سے بھارت کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی اور شہید پاکستان عبدالقادر ملا کی پھانسی کے خلاف بھرپور جو ش و جذبہ کا اظہار کیا گیا۔ لاہور میں جماعةالدعوة کی طرف سے ناصر باغ میں ایک بڑے احتجاجی جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبائ، وکلائ، تاجروں، سول سوسائٹی اور دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ملتان کے کچہری چوک میں عبدالقادر ملا کی پھانسی کے خلاف ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

اس موقع پر امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے شہید رہنما کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔ کراچی میں پریس کلب کے باہربھی جماعة الدعوة کی طرف سے بڑے احتجاجی مظاہرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں سکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور دینی مدارس کے طلباء کی کثیر تعداد سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مظاہرہ کے اختتام پر عبدالقادر ملا کی غائبانہ نماز جنازہ میں رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ غائبانہ نماز جنازہ کی امامت مزمل اقبال ہاشمی نے کی۔ جماعةالدعوة کی طرف سے راولپنڈی پریس کلب کے باہربھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد اور چوہدری حنیف سمیت زندگی کے تمامتر شعبہ جات اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔عبدالقادر ملا کی غائبانہ نماز جنازہ امیر جماعة الدعوة راوالپنڈی عبدالرحمن نے پڑھائی۔ اسی روز جماعة الدعوة اور جماعت اسلامی کے بھرپور احتجاج کے بعدقومی اسمبلی میںبھی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما عبدالقادر ملا کو پاکستان کی حمایت پرپھانسی کی سزا دینے کے خلاف مذمتی قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کیا گیا۔

قرارداد پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی پاکستان، جمعیت علماء اسلام (ف) اور دیگر جماعتوں کے اراکین کی حمایت سے منظور کی گئی تاہم پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے قرار داد کی مخالفت کی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے رکن شیر اکبر خان ایڈووکیٹ نے عبدالقادر ملا کو پھانسی دینے کے خلاف قرارداد مذمت پیش کی تھی حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پارٹی کے چیئرمین عمران خان،مخدوم جاوید ہاشمی، جمعیت علماء اسلام (ف) کی جانب سے مولانا امیر زمان، شیخ رشید احمد اور کئی دیگر اراکین نے قرارداد کی حمایت کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان عبدالقادر ملا کو پاکستان کی حمایت پر پھانسی کی سزا دینے پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

Peoples Party Flag

Peoples Party Flag

ایک محب وطن کو پاکستان سے وفاداری کی سزا دینے کی مذمت کرتے ہیں قرارداد کے ذریعے بنگلہ دیشی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ 1971ء کے سانحہ کے حوالے سے جماعت اسلامی رہنماؤں پر قائم تمام مقدمات کو ختم کیا جائے 1971ء کے معاملات کو زندہ نہ کیا جائے قرارداد کے ذریعے عبدالقادر ملا کے خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا گیا ہے قرارداد کو حکمران اتحاد اور اپوزیشن کی متذکرہ جماعتوں کے اراکین کی حمایت و تائید سے کثرت رائے کی بنیاد پر منظور کر لیا گیا پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین نے قرارداد کی مخالفت کی اور اس حوالے سے ایم کیو ایم کے عبدالوسیم اور پیپلز پارٹی کے ستار بچانی نے اظہار کیا تھا قومی اسمبلی میں سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پیش کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا گیا ہے۔

عبدالقادر ملا کی پھانسی کے خلاف جماعت اسلامی کی قرارداد پرخطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پوری پاکستانی قوم جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی دینے پر غمزدہ ہے عبدالقادر ملا مرتے دم تک متحدہ پا کستان کے حامی رہے وہ جماعت اسلامی کے رکن نہیں تھے بلکہ متحدہ پاکستان کے حامی تھے عبدالقادر ملا 16 دسمبر 1971ء تک پاکستان اور اس کے بعد بنگلہ دیش کے حامی تھے آج سے چند دن پہلے وہ شخصیت ایک عدالتی قتل کے ذریعے پھانسی پرچڑھا دی گئی آج پوری پاکستانی قوم غمزدہ ہے 1971ء کے زخم پھر تازہ ہوگئے ہیں جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ایوان میں پیش کی گئی قرارداد پر میں نے اپنی جماعت سے کہا کہ فوری طورپر دستخط کر دے کیونکہ یہ جماعت اسلامی کا فرض نہیں تھا یہ متحدہ پاکستان کیساتھ وفاداری نبھانے والا شخص تھا۔ میں یہاں یہ بھی واضح کر دوں 16 دسمبر 1971ء تک عبدالقادر ملا کی پاکستان کے ساتھ وفاداری کی بات کرتا ہوں 16 دسمبر کے بعد وہ اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے بنگلہ دیش کے ساتھ وفاداری نبھائی یہ بنگلہ دیش کی آزادی اور خود مختاری کے علمبردار تھے۔

42سال پہلے ہونے والے واقعہ پر اگر کسی کو غصہ تھا تو وہ کم از کم یہ تو سوچتے کہ عبدالقادر ملا ایک بزرگ آدمی ہیں 42سال اس واقعہ کو ہو چکے ہیں اس میں دونوں طرف سے زیادتیاں ہوئیں کس نے کتنی زیادتی کی اس مخمصے میں اگر پڑا جا ئے تو پھر قومیں بنتی نہیں ہیں قوم میں مزید تشدد آتا ہے اس میں مزید تفریق آ تی ہے ہم بنگلہ دیش کے عوام کے لیے اچھا چاہتے ہیں ہم بنگلہ دیش کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتے ہیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ جو کچھ 42 سال پہلے ہوا اس پر افہام و تفہیم والا جذبہ سامنے آنا چاہیے ۔قومی اسمبلی میں صرف قرار داد کافی نہیں بلکہ حکومت پاکستان عبدالقادر ملا کی پھانسی اور بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالنے کا معاملہ سلامتی کونسل اور او آئی سی میں اٹھائے۔ جس طرح مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سب سے بڑا کردار بھارت تھا آج بھی بھارت پاکستان کے اندر تخریب کاری کروا رہا ہے۔

بیرونی قوتوں کی خوشنودی کیلئے بنگلہ دیش میں موجودپاکستان سے محبت کرنے والے رہنمائوں پر مظالم پر خاموشی کسی صورت درست نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے 16 دسمبر سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ 1971ء کی طرح آج ایک بار پھر بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تاریں بھارت سے ہلائی جارہی ہیں۔ عبدالقادر ملاکو پھانسی اور مولانا غلام اعظم سمیت پاکستان سے محبت رکھنے والے دوسرے بنگلہ دیشی لیڈر جنہیں پھانسی کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں اور وہ کال کوٹھڑیوں میں بند ہیں’ نے قومیت اور وطنیت کیلئے قربانیاں پیش نہیں کی تھیں بلکہ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ لاالہ الااللہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بھارتی فوج کے سامنے ڈٹ گئے اور واضح طور پر کہا تھا کہ ہمیں بھارتی فوج کا پاکستانی سرزمین پر وجود برداشت نہیں ہے۔ افسوس اس امر کا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے ان محسنوں کی قدر نہیں کی۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472