کچھ برس پہلے کی بات ہے میں لاہور کے ایک مشہور فیکٹری ایریا میں قائم ایک ایکسپورٹ کمپنی میں کام کرتا تھا۔ فیکٹری میں چوبیس گھنٹے کام ہوتا تھا۔ ہر وقت فیکٹری کی مشینری کا پہیہ چلتا رہتا تھا۔ غیر ملکی آرڈرز کی بھرمار تھی۔
ورکرز کو اپنی ڈیوٹی کے ساتھ اُور ٹائم لگانے کا بھی موقع مل جاتا تھا اور ماہانہ تنخواہ کے ساتھ ایک اچھی خاصی بڑی رقم بھی ورکرز کے حصے میں آ جاتی تھی اور جب ہم ایڈمن کے لوگ ان مزدوروں کو تنخواہ دیتے تھے تو ان مزدوروں کے چہروں پر ایک ایسی خوشی نظر آتی تھی جو محسوس تو کی جا سکتی ہے لیکن لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ انہی دنوں میں ہمارے ایڈمن بلاک میں اکژ مختلف ٹیکسٹائل ملز کی بنگلہ دیش منتقلی کی بات بھی ہوتی رہتی تھی۔
کیونکہ بنگلہ دیش کو ایک تو جی ایس پی پلس کا درجہ مل چکا تھا اور اسکے علاور بنگلہ دیش میں انڈیسڑی کو انرجی بحران کا بھی کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا ور پاکستان میں ان دنوں انرجی بحران شروع ہو چکا تھا اور اسی انرجی بحران کی وجہ سے ہماری فیکڑی میں بھی آرڈر وقت پر تیار ہونا ممکن نہیں رہا اور آرڈر وقت پر ڈلیور نہ ہونے کی وجہ سے مزید آرڈرز ملنا بند ہوگئے۔
فیکڑی کی مشینری چلنا بند ہو گئی اور اچانک ایک دن مالکان کی طرف سے ایڈمن آفس کو سینکڑوں مزدوروں کو فارغ کرنے کی لسٹ بھیج دی گئی اور ان دنوں بہت سی فیکٹریوں مالکان کی جانب سے رفتہ رفتہ بہت سی فیکٹریوں کو بند کیا جانے لگا۔ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہو گئی اور پاکستان کی معاشی بدحالی شروع ہو چکی تھی۔
Textile Industry
معاشی بدحالی کی سب سے اہم وجہ ہی انڈسٹری کا روز باروز تیزی سے بند ہونا ہے انڈسٹری بند ہونے کی اہم وجوہات میں سب سے اہم انرجی بحران کا سامنا ہے صنعتوں کے لیے مسلسل بجلی اور گیس کی بندش معمول کی بات ہے انڈسٹری مالکان کی جانب سے جیسے ہی متبادل زرائع کا استعمال کیا جاتا ہے تو ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بننے والی اشیاء کی قیمتیں زیادہ ہو جاتی ہیں ٹیکسٹائل اشیاء کی قیمتیں دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ ہونے کی وجہ سے غیر ملکی آرڈرز میں ایک بہت بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔
لاکھوں کی تعداد میں مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں کئی خاندان فاقہ کشی پر مجبور ہیں لیکن اب اس معاملے کے حل کے لیے گورنمنٹ آف پاکستان کی کوششوں سے ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے پاکستان کو برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے (جی ایس پی پلس ) کا درئجہ دے دیا گیاہے جس میں گورنر پنجاب چوہدری سرور کی جانب سے کی جانے والی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کے 558 میں سے 406 ارکان پارلیمنٹ نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔
GSP PLUS سے ہونے والے کچھ فوائد بتاتا چلوں کہ پاکستان 1 جنوری 2014 سے یورپی منڈیوں میں ٹیکسٹائل سمیت بہت سی اشیاء بغیر برآمدی ڈیوٹی بجھوا سکے گا۔اور اس سے بند انڈسٹری دوبارہ کھولنے لگے گی۔ اگر ہم مکمل طور پر اپنے ٹیکسٹائل انڈسڑی کے ذرائع کو استعمال میں لائیں تو لاکھوں بیروزگار مزدوروں کو دوبارہ روزگار کے مواقع ملنے لگیں گے۔ پاکستانی انڈسٹری کو اس سے 2 بلین تک کا فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ جی ایس پی پلس کے بعد پاکستانی کاروباری طبقہ کو 30% تک بچت میں اضافہ ہو گا اور جیسے ہی کاروباری حضرات کو یہ اضافی بچت ملے گی۔ پاکستانی ایشیاء کی کاروباری گروپوں کی جانب سے انٹرنیشنل سطح پر قیمت کم ہو جائے گی اور کم قیمت ہونے کی وجہ سے غیر ملکی آرڈرز میں اضافہ ممکن ہے۔
یقینا پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ ملنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حکومت وقت ملکی انڈسٹری کو صیح سظح پر لانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے لیکن جی ایس پی پلس ملنے کے باوجود بھی ابھی تک پاکستانی انڈسٹری کو انرجی بحران کا سامنا ہے جس کے لیے حکومت وقت کو ہنگامی بنیادوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔
وزیراعظم کو اپنے دیے گئے بیان کے مطابق پاکستانی انڈسٹری کے لیے بجلی اور گیس کی فراہمی کو یقینی بناکرملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر نا ہوگا اور عوام کو دکھائی گئی امید کی کرن کو بجھنے سے بچانا ہو گا۔