حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر مکہ و طائف کے درمیان تیار تھا۔ اسوقت فرشتوں کا استاد حارث اپنے چند شاگردوں کیساتھ مجسمہ آدم علیہ السلام کا معائنہ کرنے آیا اور منہ سے داخل ہو کر دبر (پیچھے کے مقام ) سے نکل گیا پھر کہنے لگا اے فرشتوں کیا اللہ نے تمہیں اسکی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرشتے اس کی اس بات پہ خاموش رہے اور کہا کہ ہم اللہ کے حکم کے آگے سر خم تسلیم کرتے ہیں۔ اب حارث بولا کہ اگر اسکو مجھے اس پہ حاکم بنا دیا گیا تو میں اس کو ہلاک کر دوں گا ۔اگر اسکو مجھ پر حاکم بنایا گیا تو میں ضرور اس کی نافرمانی کروں گا ۔ جب اللہ تعالی نے اس خمیر کو زندگی عطا کی اس مجسمہ مٹی میں روح ڈالی اب وہ حضرت انسان معرض وجود میں آگیا ۔اب اللہ تعالی نے اس کو تمام ارض و سماع عرش و فرش کی معرفت عطا فرما کر فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ اور حکم ربانی ہوا کہ اس کو سجدہ کروں تمام فرشتے سر سجود ِآدم ہوگئے مگر حارث اپنی بات پر اڑھا رہا ۔اب اللہ تعالی نے اسکو پوچھا کہ تو نے اس کو کیوں سجدہ نہ کیا ۔عرض کی مولا ”خلقتنی من نار وخلقتہ من طین”ترجمہ اے اللہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے (سورہ اعراف آیت ١١)ا۔اللہ نے اس استاذالملائکہ کو اپنی رحمت سے جدا کر دیا ۔اب وہ اس دنیا میں انسانیت اور آدمیت کا دشمن ہے۔
کبھی کیا کہہ کر انسان کو اللہ کی نافرمانی پر اکساتا ہے مگر یہ ایک ناقابل فروش حقیقت ہے کہ اسکو ابو الانسانیت یعنی آدم علیہ السلام کی دشمنی نے اس مقام تک پہنچایا۔ اگر ہم اسکی وجہِ اصل معلوم کرنا چاہے تو ہم کو با آسانی معلوم ہوگا کہ کونسی چیز نے شیطان کو سجود آدم علیہ سلام ہو نے سے روکا ۔وہ عدم معرفت ہے اس نے آدم علیہ السلام کے اوصاف جلیلہ و حمیدہ کوپہچاناہی نہیںتھا وہ تو صرف اس مٹی کے خمیر کا نقشہ ذہن و تصور میں بٹھا کر اس مجسمہ مٹی کوہی گمان کرتا رہا۔ مگر باقی فرشتے اس کے وصف علمیت کا اقرار کرتے ہوئے سر سجود ہوگئے ۔ان کو فیضا ن آدم بھی ملا اور رضا خدا وندی بھی۔ اور بارگاہ خدا کے مقبول بھی رہے تو عزت ہمشگی سے سر فراز بھی ہوئے۔ مگر انکا استاد جو صحیح معنوں میں آدم علیہ السلام کی ذات کا اندازہ نہ کر سکا وہ نہ صرف لعنت انسانیت کا مستحق ہوا بلکہ تمام زندگی کی عبادت کوبھی حقارت کر گیا ۔اب اگر ہم غور کریں تو ہمیں بھی معلوم ہوگا کہ ایسے کتنے ہی لوگ ہونگے جنکے پاس قابل لوگ بھی ہونگیں اور قابل چیزیں بھی ۔مگر اندازہ اسوقت ہوتا ہے جب وہ اشیاء ہم سے دور ہو جائے۔
کیونکہ انکی حقیقت ہمیں اسوقت معلوم ہوتی جب وہ ہم سے دور ہو جائے یا اس کائنات عالم سے ہی معدوم ہو جائیں ۔اور جس وقت وہ ہمارے شریک سفر ہو یا ہم سے میل جول رکھتے ہوتو ہمیں کوئی قدرو منزلت ہی نہیں ہوتی مثال کے طور پر والدین۔ انسان پر کتنے مہربان ہوتے ہیں۔مگر ہم ان کی قدر نہیں کرتے نہ جانے کیوں ان کے حکم کے برخلاف کام کرتے میں اپنی بھلائی سمجھتے ہیں۔ جب وہ ہمار پاس ہوں تو ہم انکی بات ہی نہیں سنتے ۔ان کو وقت نہیں دیتے حالانکہ صرف ان کے چہرے کیطرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ حضور ۖ٫ نے کیا خوب فرمایا کہ۔ ”النظر الی وجہ الوالد عبادة”ترجمہ والد کے چہرے کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے ،(الحدیث)گر ہم والدین کو وقت نہیں دیتے تودنیا میں والدین ہی ایک ایسا رشتہ ہے جو اپنی ہر فرمائش پر ہماری فرمائش کو ترجیح دیتے ہیں جو نہ صرف ہمارے ساتھ مخلص بلکہ انکے خیال میں جو بہتر نہیں ہوتا اسکو کرنے بھی نہیں دیتے۔
Love
والد میں اگر چہ کچھ سختیاں بھی ہوتی ہیں مگر والدہ نام ہے ایک پیار کا ایک محبت کا اور ایک خلوص کا۔ اللہ تعالی نے عورت میں ایک خاص چیز و دیعت رکھی ہے۔ اسکا نام ہے محبت کرنا ۔اگر آپ دوسروں لفظوں میں عورت کا نام love (محبت) رکھ لیں تو بجا ہو گا مثال کے طور پر عملی زندگی کی ابتداء تقریبا ١٢ سال میں شروع ہوجاتی ہے ۔کیونکہ اس سے قبل اسلام بھی انسان کو نا بالغ کہتا ہے اور اس سے کم عمر لابالی عمرکہلاتی ہے ۔اگر چہ کچھ لوگ ٩ سال کی عمر میں حد ِبالغ کو پہنچ جاتے ہیں مگر بہت کم ہوتا ہے مگر وہ صرف عورتیں ہی اس عمر میں بالغ ہوتی ہیں ۔لیکن یہ گفتگو کسی اورطرف نکل جائے گی بر حال عملی زندگی 10-12کی عمر میں شروع ہوجاتی ہے تو دیکھیں لڑکیاں اس عمر میںجہاں چھوٹے بہم وبھائیوں کا خیال کرتی ہیں تو وہاں بڑے بھائیوں کپڑوں کا بھی خیال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جوتے بھی صاف کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتیں۔
ماں کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ رات کو جب والد آتے ہیں تو ان جسموں پر پیار بھرے ہاتھوں سے مالش و دبانے کی خدمت انجام دیکر ان کے دل کا سکون بن کر سارے دن کی تھکن چند لمحوںمیں ختم کر دیتی ہیں ۔تقریبا ان کی زندگی میں ابواب جاری ہو جاتے ہیں ابھی ایک باب بند ہو تانہیں تو دوسرے کی تیاری شروع ہوجاتی ہے ۔وہ بھی ایک عجیب رشتہ ہے کہ جس نے اس کو کیا وہ بھی پشتاتا ہے اور جس نے نہیں کیا وہ بھی پشتاتا ہے۔ مگر کیونکہ کے نئی جنریشن (نسل)کو نظام حیات چلانے کیلئے اس پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔ کہ اس کے بغیر نظام کائنات معرض و جود میں ہی نہیں آسکتا۔ اسکا نام ہے سنت نکاح۔ جب شادی ہوگئی تو سسرال کے تانے اور نندوں کی باتیں سنے کے باوجود بھی اپنے شوہر کی تمام تکالیف کا درد محسوس کرنا۔شوہر کی نوکری کا خیال کرتے ہوئے۔ اپنی خواہشوں کو دبانا ۔اب ہر طرح سے انکا خیال کرنا صبح ڈیوٹی ٹائم پر جانے کیلئے خیال کرنا ۔اوران سے ناشتے کا خیال کرنا دوپہر کا کھانا ساتھ تیار کر کے ٹفن میں دینا رات کو جیسے ہی وہ واپس آئیں تو کھانا تیار ہونا ذائقہ دار ہونے کیساتھ ساتھ ا س کا بھی خیال کرنا کہ اسمیں نمک و مرچ کم زیادہ نہ ہوکچا یا جلا ہوا نہ ہو۔
آخر ان سب باتوں کا خیال کب رکھا جاتاہے ۔جب انسان کا دل صرف اپنے پیار و محبت کومحسوس کرتا ہو۔تو یقینا یہ بات تقریبا ازواج میں پائی جاتی ہے ۔لیکن ابھی کچھ زندگی باقی ہے ۔سب سے مشکل مرحلہ پیدائش کے بعد اب بچے کا خیال کرنا اسکی وجہ سے گرم چیز نہ کھانا مرچ و مصالحہ کا استعمال ترک کرنا کہ میرے دودھ میں اسکے اثرات سے اسکی طبیعت خراب نہ ہوجائے ۔جب وہ رات کو پیشاب کرے تو خود اسکے پیشاب پر سو کراسکو خشک جگہ پر سلانے کی بات تو عرصہ دراز سے سنتے آرہے ہیں۔ لیکن اب بھی اس کی خواہشات کا سلسلہ رکتا نہیں تھمتا نہیں ۔اب اس کی ماں کی دعائیں اور التجائیں اللہ کے حضور شروع ہو جاتی ہیں مولا میرے بیٹے کو جلد از جلد بیٹھنے کے قابل بنا اب جب بیٹھنا شروع کر دیتا ہے تو چلنے کے لئے دعائیں حتٰی کہ اسکی نوکری کے لئے پھر اسکی شادی کے لئے ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ چاند سی لڑکی تلاش کرے۔
جب ماں ایسی لڑکی تلاش کر کے شادی کر وادیتی ہیں تو بس اب یہ جوان اپنی والدہ کی تمام محبتوں شفقتوں کو بھلا کر صرف و صرف بیوی کے کہنے پر چلنا شروع کر دیتا ہے ۔اب ہمیں ہماری ماں اچھی نہیں لگتی کیونکہ ہمیں اپنی بیوی کا کہنا ماننا ہے۔ آج ہم اپنی والدہ کے تمام ارمانوں و پیار و محبت کو اکھٹا کر کے ان کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ مگر اب یہی والدہ اپنی زندگی کے آخری ایام بھیک مانگ کر بھی نہیں گزار سکتی کیونکہ بھیک مانگنے کا بھی ایک خاص فن ہے ۔جو کہ صرف و صرف تربیت یافتہ لوگ ہی اس فن سے واقف ہو تے ہیں اور وہ اپنی مہارت دکھا کر لوگوں سے پیسہ کا حصول کر سکتے ہیں۔ ورنہ ایک نا تجربہ کار شخص کے لئے تو بہت مسئلہ بن جاتا ہے کہ وہ اپنے مابقیہ زندگی کے ایام کس طرح گزر بسر کرے۔اب اس بوڑھی ماںکی زندگی ایک المیہ بن کر رہ جاتی ہیں اور وہ موت کو مقصد سمجھ کر اپنی زندگی کے ایام بسر کرنا شروع کر دیتی ہے۔ مگر یہ سب کچھ کر گزرنے کے بعد بھی ایک بات تو ضرور ہے کہ ہمیں بھی والدین بننا ہے جیسا ہم کریں گے ویسا ہی ہمارے ساتھ ہوگا۔ چلو اگر دنیا میں نہ بھی ہو تو آخرت تو حساب کتاب کے لئے۔ کیا ماں کے قدموں تلے جنت و دوزخ ہونے کے بارے میں ہم نہیں سن چکے۔ آخر کیا ہو گیا کہ ہم جنت کی طلب بھی کرتے رہے۔ اور ماں کی نا فرمانی بھی۔ تو یہ کسی طرح روانہ ہوگا۔اگر ماں راضی ہے تو پھر اس دنیا میں ہی جنت ہے۔ ورنہ اس دنیا میں ہی سمجھ لینا چائیے کہ ہم دوزخ کے حقدار ہیں لہذٰا ہمیں اپنے والدین کا خیال رکھنا چائیے۔