شاہ عبداالطیف بھٹائی

Shah Abdul Latif Bhittai

Shah Abdul Latif Bhittai

حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی علیہ الرحمہ کا تعلق ملک پاکستان کی اُن ان اشخاص سے ہوتا ہے جو اس ملک پاکستان کے وجود سے بھی کہیں صدیاں پہلے سے خطہ پاک و ہند میں آکہ اسلام کا پرچم بلند کرتے رہے اور اسلام کے نور سے پورے معاشرے کو منور کرتے رہے جس طرح ابتداء اسلام میں عرب سے اہل اسلام تجارت کے لئے قرب وبعد کا سفر کرتے اور جس بھی مقام پہ اہل اسلام کے یہ امانت دار تجار کا قافلہ جاتا تو وہاں پہ ان کے اخلاق کریمہ سے متائثر ہو کر غیرمسلم جوق در جوق اسلام کے دامن محبت میں شامل ہوتے جاتے ان ہی میں سے عبداللہ شاہ غازی اور محمد بن قاسم علیھما الرحمہ بھی ہیںیہ وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس خطے کو اپنے فیض سے اس زمین کوفیضیاب کیا انہیں میں سے حضرت عبدالطیف بھٹائی علیہ الرحمہ کے آباء واجداد بھی ہیں جو ایران سے ہجرت کر کے موجودہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں آئے اور انہوں نے اس صوبہ کے شہر ہالا کو اپنا مسکن بنایا اور قلیل مدت کے قیام کے بعد انہوں نے مٹیاری کواپنی سکونت سے شرف بخشایہ وہ ہی شہر ہے جہاں پہ تحریک پاکستان کے عظیم مجاہد جناب حضرت غلام مجددعلیہ الرحمہ جو کہ حضرت مجدد الف ثانی کی اولا د میں سے ہیں مدفون ہیںاور ان کا مزار مبارک بھی وہیں ہے۔

پھرمٹیاری سے آپ کے والد ماجد حضرت سید حبیب اللہ شاہ صاحب ہالا کہ ایک قصبہ میں سکونت پذیر ہوئے جو کہ اب حضرت عبداللہ شاہ بھٹائی کے مزار سے ٩ کلو میٹر کے فاصلے پہ واقع ہے اور یہ وہ ہی زمین ہے جس نے سب سے پہلے حضرت عبدالطیف شاہ بھٹائی کا استقبال کیا اس وقت سن قمری١١٠٢اور سن شمسی ١٦٨٩ تھی یہ وہ دور تھا جب کہ پورے دنیا میں اسلام کا بول بالا تھا اور پوری کائنات ایک عادل بادشاہ کے فیض سے مستفیض ہو رہی تھی اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ جب حضرت عبدالطیف بھٹائی علیہ الرحمہ کی عمر ١٦ سال تھی اس ہی دور میں عالمگیر بادشاہ اس دار فانی سے کوچ فرما گئے تھے ۔

اب آپ خود ہی اس دور کے علم و فضل کا خاکہ اپنے اذھان و قلوب میں بیٹھا سکتے ہیں اس علمی دور میں بھی آپ کو صرف علم باطنی سے لگائو تھا آپ نے کبھی کوئی بھی علم حاصل نہیں کیا جب استادمحترم کے پاس بھیجا توآپ علیہ الرحمہ نے صرف استاد سے ایک ہی لفظ الف پڑھا اور اس کے بعد کچھ بھی نہ پڑھا اس کا مقصد یہ نہیں کہ وہ علم سے خالی تھے بلکہ جس وقت ان کے لکھے ہو ئے اشعار پڑھیں تو گویا کہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے دور کے امام غزالی ہیں یا امام رازی ہیں ان کے اشعار میں اتنے رموز ہیں کہ بڑے بڑے دانشور بھی ان رموز تک پہچنے میں دقت محسوس کرتے ہیں اور بہت غور خوض کے بعد یہ معلوم ہو تا ہے کہ حضرت کا اشارہ کس طرف ہیں اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللطیف بھٹائی علیہ الرحمہ نے اس طرح کے دقیق استعارات کو استعمال کیا ہے جس کواہل تصوف و اہل معرفت ہی پہچان سکتے ہیں۔

Allah

Allah

اور بظاہر اگرچہ علم کا حصول نہ کیا مگر اللہ تعالی کا ان پہ خاص فضل واحسان و رحمت تھی کہ جس سے آپ کو وہ مقام و مرتبہ ملے جو کہ بلندپایہ و اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی نصیب نہ ہو سکی جیساکہ شاہ صاحب کے ہی ایک ہمعصر آپ علیہ الرحمہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ ”شاہ صاحب کے قلب پہ سارے عالم کا علم اس طرح لکھا ہوا تھا جسے تختی پہ لکھا ہوا ہو”شاہ صاحب کے بارے میں کہیں گئی بات کا اندازہ آپ کے اشعار و دیوان پڑھ کہ ہی کیا جا سکتا ہے کہ اسمیں کتنی علمیت ہیںمیں اس مکالے میں آپ کے اس رموز کی کچھ اشارات کی طر ف متوجہ کرتا ہو ں زیادہ وضاحت کا یہ مقالہ متحمل نہیں ہوسکتا تاکہ حضرت کی علمیت کااندازہ ہو سکے ۔آپ کا ایک شعر حاضر خدمت ہے آپ فرماتے ہیں کہ”بحر و بر ہی پہ کچھ نہیں موقوف ساری دنیا ہے حسن سے معمور۔ کار فرما ہے اے میرے محبوب۔ فرش سے تابہ عرش تیرا نور۔ عرصہ دارگیر ہے دنیا ذرہ ذرہ ہے پیرو منصور ”اس میں حضرت نے بہت ہی نکات بیان کئے اگر کوئی صرف اس ایک شعر کی تشریح لکھنا شروع کرے تو یقینا کئی مقالات اس ایک شعر کے رموز پہ لکھے جاسکتے ہیں اس کی میں کچھ تھوڑی سی وضاحت کر تا ہو۔

حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے فرمایاکہ سمندر و خشکی میں ہی کرشمات خدا وندی موقوف نہیں جدھر دیکھو جہاں دیکھو وہاں ہی خدا کی توحید کے آثار نظر آتے ہیں اسمیں سید علیہ الرحمہ نے کیا کمال کیا۔ کہ کئی احادیث و قرانی آیات کو جمع کر دیا جس طرح کے قران مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ”سنریھم ایاتنا فی الافاق و فی انفسھم ”ترجمہ ہم تمہیںاپنی نشانیاں دیکھائیں گے عالم آفاق میں اورتمہاری جانو ں میں (القران)اس ہی طرح حضرت نے اپنے دیوان میں فرمایاکہ بحر و بر پہ ہی نہیں کچھ موقوف ساری دنیا ہے حسن سے معمور ۔مطلب یہ ہے کہ ہر جگہ اللہ ہی کے نظاہر موجود ہیںجس سمت دیکھو جہاں دیکھو جدہر دیکھو ہر ہر زرہ و ہرہرپتا اس کی توحید کی ہی نشانیاں بیان کر رہاہے اور اس پہ ایک اور دلیل قران مجید میں دودھ کی حقیقت کے بارے قران مجید کی سورہ نخل کی آیت نمبر٦٦ میں ارشادہوتاہے کہ ”وان لکم فی الانعام لعبرةنسقیکم ممافی بطونہ من بین فرثو دم لبنا خالصاسائغاللشربین”ترجمہ اور تمہارے لئے حیوانات میں عبرت ہے ہم تمہیں پلاتے ہیں جو ان کے پیٹوں میںہیں خون اور گوبر کے درمیان بے آمیزیش اور پینے والوکے لئے ذائقہ دار (القران)تو حضرت کا مقصد یہ ہی تھا کہ جس طرف بھی دیکھو تو وجودخدا وند ی کے مظاہر ہیں اسمیں بحر و بر کی کوئی تخصیص نہیں اگر عقل و شعور ہے تو پھر ان چوپائیوں سے بھی حصول عبرت کرسکتے۔

اور یہ مضمون احادیث شریف میں بھی آیا ہے کہ اللہ کے رسول ۖ نے ارشاد فرمایا کہ ”من عرف نفسہ فقد عرف ربہ”ترجمہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔(الحدیث)ان ہی آیات و واقعات کی طرف حضرت نے اپنے اس شعر میںاور بھی واضح انداز میں اشارہ فرمای اور یقینا یہ حضرت کی قرانی آیات و احادیث و تصوف پہ گہری نظر کا نتیجہ ہے جو کہ خدا وند عالم نے ان کو عطا فرمائی تھی ۔اور اس ہی کی طرف ایک اور اشارہ بھی شعر اول سے زیادہ فصیح انداز میںحضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے کیا۔ فرماتے ہیںکہ ”خود شناسی خدا شناسی ہے۔ ورنہ ہستی صنم تراشی ہے”اگر خدا کی پہچان و معرفت نہیںاور خدا کو چھوڑدیاتو صرف پتھر تراشنے والا ہے کیونکہ اس سے عالم کے جوہر کی کوئی خبرہی نہیںکہ عالم کائنات کا خالق و مالک کون ہے ۔بس یہاںپہ کچھ ہی اشعار ذکر کئے گئے ورنہ آپ کے ابیات پہ تو کئی مقالے لکھے گئے لیکن اب بھی بہت کام باقی ہے جس طرح حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ اور امام غزالی اپنے اپنے ادوار میں کام کر گئے مگرکئی صدیا ں بیت گئی آپ کے نکات تصوف پہ آج بھی تحقیق ہو رہی ہے۔

اس ہی طرح علامہ کے افکار و تصورات پہ آپ علیہ الرحمہ کے دیوان و ابیات پہ ایک تحقیقی ٹیم کی ضرورت ہے جو مل کر کام کریں اورمزید آپ کے علم کے ہر ہر پہلو کو روشن کرے تاکہ ان کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہو کر مردہ وصف لوگ اللہ کی توحید میں سر مست ہو کر عالم کائنات کے لئے ایک لازوال نعمت بنیں۔ یہ تصوف کے سورج اور علم معرفت کے سمندر اہل طریقت کے قمر بلآخر ٢٤صفر المظف کو١٧٥٢عیسوی کو داعی حقیقی کو لبیک کہتے ہو ئے اس دار فانی کو افسردہ چھوڑ گئے۔

Mufti Mamoon Ur Rasheed

Mufti Mamoon Ur Rasheed

تحریر: مفتی مامون الرشید قادری