قائد کا پاکستان لہو لہو

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

بابائے قوم محمد علی جناح پچیس دسمبر اٹھارہ سو چھہتر کو کراچی کے تاجر جناح پونچا کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جناح نے لندن سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ سیاسی کیریئر کی ابتدا 1906 میں آل انڈیا کانگریس میں شمولیت اختیار کر کے کی لیکن سات برس بعد 1913 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی اور 1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوگئے۔ کانگریس میں رہ کر قائد اعظم ہندوؤں کے تعصب سے اچھی طرح واقف ہوگئے اور اسی لئے ہندوؤں کے ساتھ ملکر انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک چلانے کی بجائے علیحدہ وطن کے حق میں تھے۔ بابائے قوم محمد علی جناح مسلمانوں پر انگریزوں اور ہندوؤں کی بالادستی کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ برصغیر کے مسلمان انگریزوں کے تسلط سے نکل کر ہندوؤں کے تسلط میں نہیں جانا چاہتے۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کا آزاد اور خودمختار ملک ہو۔

قائد اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی طبقے کو لوٹ مار اور اجارہ داری کی اجازت نہیں دی جائے گی ہر شخص کا معیار زندگی اس قدر بلند کیا جائے گا اور امیر و غریب کا کوئی فرق نہیں رہے گا۔ قائداعظم نے پاکستان تو بنا دیا لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ پاکستان کے قیام کے ایک برس بعد ہی بہتر برس کی عمر میں انتقال کر گئے انہیں کراچی میں سپرد خاک کیا گیا۔ بابائے قوم کے یوم پیدائش کے موقع پر ملک کے چاروں صوبوں میں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں بانی پاکستان کی تحریک آزادی کیلئے کی جانے والی کوششوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس موقع پر وفاقی دارالحکومت میں بھی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔صدر پاکستان،وزیر عظم، وزرائے اعلی اپنے اپنے پیغام جاری کرتے ہیں، بھر سیاسی اور سماجی شخصیات مزار قائد پر حاضری دیتی ہیں اور پھولوں کی چادریں بھی چڑھا ئی جاتی ہیں۔انکا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی سطح پر منایا جاتا ہے، اس دن پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے۔

کیا قائداعظم کے یوم پیدائش پر تقریبات کے انعقاد،حکام کے پیغامات اور تعطیل سے ہم انکے اس عظیم احسان کا بدلہ چکا لیتے ہیں جو انہوں نے ہمیں ”پاکستان ” کی شکل میں دیا،آج قائداعظم کا پاکستان لہو لہان ہو چکا ہے،ایک طرف ملک میں دہشت گردی،تخریب کاری ہے ،بم دھماکے ہیں،خود کش حملے ہیں،ٹارگٹ کلنگ ہے،تو دوسری جانب ڈرون حملے بھی ہوتے ہیں جن میں اسی ملک کے باسی شہید ہوتے ہیں،قائد کے اس عظیم ملک میں آج کراچی محفوظ نہیں، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جن میں پاکستان کے ازلی دشمن ا نڈیا کا واضح کردار نظر آ رہا ہے،خیبر پختونخواہ میں بم دھماکوں کا تسلسل جاری ہے، پنجاب میں فرقہ واریت کے نام پر کھیل کھیلا جا رہا ہے،قائد اعظم کے پاکستان کا تو اس وقت ہی خون ہو گیا تھا جب بنگلہ دیش جدا ہوا تھا،قائد کے بنائے گئے ملک کو دولخت کیا گیا، مشرقی پاکستان اچانک بنگلہ دیش میں تبدیل نہیںہوا تھا۔ اس کے پیچھے ہندو بنئے کی کئی سال کی سازشیں تھیں۔ کلمہ طیبہ کے نام پر اپنی جانیں قربان کرنے والے بنگالیوں سے لاالہ الااللہ کا نعرہ چھین لیا گیا تھا اور نفرت کی دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے دو بنیادی عوامل تھے۔ پہلی غلطی اس وقت یہ کی گئی کہ بنگالی قومیت، زبان و کلچراور پنجابیوں سے نفرت کی بنیاد پر تحریک کھڑی کی گئی اور کہا گیا کہ ہم اسی بنیاد پر سیاست کریں گے اور حکومت بنائیں گے۔

Allah

Allah

یہ اللہ کی شریعت سے بغاوت اور اس کے پیچھے ہندو بنئے کی سازش تھی جسے پروان چڑھانے کیلئے تعلیمی اداروں میں ہندو استاد لگائے گئے۔ نصاب تبدیل اور نوجوان نسل کے ذہن برباد کئے گئے۔ دوسری غلطی یہ کی گئی کہ جب اللہ تعالیٰ نے نعمت کے طور پر ایک الگ ملک دے دیا تو اس میں 1935ء کا ایکٹ جو بھار ت میں نافذہوا وہی پاکستان میں بھی کر دیا گیا۔ اگر اس وقت کے حکمران یہ غلطی نہ کرتے اور اس بات کا اعلان کرتے کہ جو آئین نبی اکرم ۖ کے دور میں مدینہ کا تھاوہی آئین اور دستور پاکستان کا ہو گا۔اسی پر عدلیہ اور مقننہ کو پابند کیا جاتا اور طے کیا جاتا کہ یہاں مغرب کے سودی نظام اور ڈھانچے نہیں چلیں گے تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا اور پاکستان ایک مضبوط قوت بن کر ابھرتا۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک میں قرآن و سنت، سیرت رسول ۖ اور اسلامی تاریخ کی ترویج کی جائے۔ یہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے پاکستان کی حفاظت کی بنیاد ہے۔ مشرقی پاکستان والی غلطیاں دہرائی جانے سے بچنے کیلئے قرآن سے رہنمائی میں پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

یہ ملک لاالہ الااللہ کی جاگیر ہے۔ کبھی بلوچستان کے ساحل مکران اور سندھ کا تعارف اس خطہ میں اسلام کے پھیلنے کی بنیادبننے کے حوالہ سے تھا۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر سندھی، بلوچی، پنجابی اور پٹھانوںنے قربانیاں پیش کیں۔لیکن صورتحال یہ ہے کہ جس طرح مشرقی پاکستان کے سانحہ سے قبل تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کی گئیں بالکل اسی طرح آج بھی تعلیمی نصاب سے قرآنی آیات، بدر، احد اور غزوہ احزاب جیسی اسلامی تاریخ اور سیرت رسول ۖ پر مبنی ابواب ختم کر کے پنجاب کی تاریخ، اس خطہ کی تہذیب و تمدن میں سکھوں کا کیاکردار ہے؟یہاں کس نے حکومت کی تھی؟جیسی باتیں پڑھائی جارہی ہیں اور جنسی تعلیم کو فروغ دیکر معاشرے میں بگاڑ اور سیکولرازم کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ یہ طرز عمل درست نہیں ہے۔ نوجوان نسل کو صحیح اسلامی تاریخ اور قرآن و سنت سے روشناس کرنے کی ضرورت ہے۔ انڈیا سے دوستی کے نتیجہ میں بنگلہ دیش بنا۔

آج بھی اسی دوستی کا دم بھراجارہا ہے اور اسے پسندیدہ ترین ملک کادرجہ دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔قوم سوال کرتی ہے کہ اگر اسے پسندیدہ قرار دینا اتنا ہی ضرور ی ہے تو پھر ہندو بنئے سے علیحدگی کیوں اختیارکی اور یہ نعرہ کیوں بلند کیا کہ ہم انگریز کی غلامی میں اور ہندوئوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے؟بعض سیاستدان کہتے ہیں کہ ایسا صرف بھارت سے تجارت کیلئے کیا جارہا ہے’ آخر ہندو سے دوستی کانقصان کیا ہے؟ ہمیں مل جل کر رہنا چاہیے۔تو ایسے لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش میں تبدیل ہونا اور پنجابیوں و بنگالیوں کی لڑائی بھارت سے دوستی کا ہی نتیجہ تھا۔ جہاں تک کفار سے تجارت کی بات ہے تو اسلام اس سے منع نہیں کرتابلکہ اسلام نے تو یہ اصول وضع کئے ہیں کہ مسلمانوں کا اخلاقی معیار یہ ہونا چاہیے کہ کافروں کے ساتھ بھی کوئی معاہدہ کیاجائے تو اس کی پاسداری کی جائے۔نبی اکرم ۖ کے دور میں بھی کفار سے تجارتی معاہدے کئے گئے لیکن ان سے کبھی دوستی نہیں کی۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جب کفار سے دوستی ہوتی ہے تو پھر اس کا نتیجہ مسلمانوں کی آپس کی لڑائی اور دشمنی کی صور ت میںنکلتا ہے اورباہمی اخوت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

شیخ مجیب اور اس کے ساتھیوںنے یہ نعرہ لگایا تھا کہ بھارت ہمارا دوست اور خیرخواہ ہے۔ ہم انڈیا سے تعلقات بڑھائیں گے۔ اس طرح وہ اگرتلہ سازش کا حصہ بنے اور پھربھارت کو اپنی فوج مشرقی پاکستان میں داخل کرنے کا موقع ملا۔ آج اسی شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد بھی وہی نعرہ بلند کر رہی ہے۔ حکمران آج بھی قائد اعظم کے اصولوں کے اصل پیغام کو فراموش کر رہے ہیں، اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کے سنہرے اصول سے پاکستان بنا اور انہی اصولوں پر چل کر ملک کو ترقی کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے، ملک کے امن کو تباہ و برباد کرنے والے ملک کے خیر خواہ نہیں، قائد اعظم محمد علی جناح کے سنہرے اصولوں پر چل کر ہی دہشت گردی کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472