لاہور (جیوڈیسک) ملکہ ترنم نور جہاں کو بچھڑے 13 برس بیت گئے، مگر ان کے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ دنیائے موسیقی کے پنڈتوں کا کہنا ہے کہ گائیگی کی تاریخ میں صرف دو خواتین ایسی گزری ہیں۔
جنہوں نے اونچے سروں میں آواز کا جادو جگایا، ایک تھیں ام کلثوم اور دوسری نور جہاں۔ 1926 میں بلھے شاہ کی نگری قصور کے غریب موسیقار گھرانے میں ایک بچی نے جنم لیا، نام رکھا گیا اللہ وسائی۔ یہ بچی سات برس کی عمر میں ہی فلم اور تھیٹر کی دنیا میں داخل ہو گئی۔
نور جہاں نے بٹوارے سے پہلے 150 سے زیادہ فلمی گیت گائے اور بارہ خاموش فلموں سمیت 70 فلموں میں اداکاری بھی کی، 1947 میں بننے والی فلم جگنو میں دلیپ کمار نور جہاں کے ہیرو تھے۔ نور جہاں نے اردو اور پنجابی سمیت کئی زبانوں میں گیت گائے۔ لیکن پنجابی زبان کے گیتوں میں ان کی طبعی شوخی کچھ اور بھی نمایاں ہو کر سامنے آتی۔
بر صغیر کی مقبول گلوکارہ، لتا منگیشکر بھی نور جہاں کی مداح ہیں۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ الفاظ کی ادائیگی، انہوں نے نور جہاں سے سیکھی۔ 7 دہائیوں تک فن گائیکی میں یکتا رہنے والی ملکہ ترنم نور جہاں آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں لیکن نور جہاں کے گائے ہوئے گیت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔