خطبة حجة الوداع کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ خطبة حجة الوداع بلاشبہ انسانی حقوق کا اوّلین اور مثالی منشور اعظم ہے۔ اسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کا سب سے پہلا منشور انسانی حقوق ہونے کا اعزاز ہے۔ اس منشور میں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی، قومی مفاد کسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کاکوئی شائبہ نظرتک نہیں آیا۔ ذی قعدہ ٠١ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کا ارادہ کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا اور آخری حج تھا۔ اسی حوالے سے اسے ” حجةالوداع “کہا جاتا ہے۔ یہ ابلاغ اسلام کی بنیادپر’حجةالاسلام’،’حجة التمام’اور’حجة البلاغ’کے نام سے بھی موسوم ہے اس حج کے موقع پرآقاء نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اسے” حجة الوداع” کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے قصوء اونٹنی پر کجاو اکسا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قصواء اونٹنی پر سوار ہو کر بطن وادی میں تشریف لے گئے اسوقت اآپ ۖکے گرد ایک لاکھ چوبیس ہزار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکے سامنے ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کا مکمل متن قارئین کی خدمت میں پیش کیاجارہاہے تا کہ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ارشادات کا مطالعہ کریں جس میں نوع انسانی کے جملہ حقوق کی نشاندہی کی گئی ہے اور نوع انسانی کے مختلف اصناف کے حقوق وفرائض کا جوتذکرہ کیا گیا ہے، اس کا بنظر غائر مطالعہ کریں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ پاک کی حمد وثناء کرتے ہوئے خطبہ کی ابتداء یوں فرمائی۔”اے لوگو!بے شک تمھارا رب ایک ہے اور بیشک تمھارا باپ(آدم علیہ السلام)ایک ہے۔ سن لو، کسی عربی کو کسی عجمی پر،کسی سْر خ کوکسی کالے پراور کسی کالے کوکسی سْرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔ اس طرح زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخر اور رنگ ونسل کی برتری اور قومیت میں اونچ نیچ وغیرہ تصوراتِ جاہلیت کے بْتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے مساواتِ اسلام کا عَلم بلند فرمایا۔ فرمایا: اے لوگو! تمھاری جانیں اور تمھارے اموال تم پر عزت وحرمت والے ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو، یہ اس طرح ہے جس طرح تمھارا آج کا دن حرمت والاہے۔اور جس طرح تمھارا یہ شہر حرمت والاہے۔بے شک تم اپنے رب سے ملاقات کروگے وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میںپوچھے گا۔سنو!اللہ کاپیغام میںنے پہنچا دیا اورجس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہواس پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچا دے۔ سارا سود معاف ہے لیکن تمھارے لئے اصل زر ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پرکوئی ظلم کرے۔
اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیاہے کہ کوئی سود نہیں۔سب سے پہلے جس ربا (سود،بیاج)کو میں کالعدم کرتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔یہ سب کاسب معاف ہے۔ زمانہ جاہلیت کی ہر چیزکو میں کالعدم قرار دیتا ہوں اور تمام خونوں میں سے جوخون میں معاف کررہا ہوں وہ حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حارث کے بیٹے ربیعہ کاخون ہے جو اس وقت بنو سعد کے ہاں شیر خوار بچہ تھا اور ہذیل قبیلہ نے اس کوقتل کر دیا۔ اے لوگو! شیطان اس بات سے مایوس ہوگیاہے کہ اس زمین میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی،لیکن اسے یہ توقع ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔اس لئے تم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے ہوشیاررہنا۔پھرفرمایاکہ جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا،سال کوبارہ مہینوں میں تقسیم کیا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں (ذی قعدہ،ذی الحجہ،محرم اور رجب)ان مہینوںمیں جنگ و جدال جائز نہیں۔
Allah
اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، میں تمھیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمھارے زیرِ دست ہیں، وہ اپنے بارے میں کسی اختیار کی مالک نہیں اور یہ تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں اور اللہ کے نام کے ساتھ وہ تم پر حلال ہوئی ہیں تمھارے ان کے ذمہ حقوق ہیں اور ان کے تم پر بھی حقوق ہیں۔ تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر کی حرمت کو برقرار رکھیں اور ان پر یہ لازم ہے کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں اور اگر ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سرزد ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے تمھیں اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خواب گاہوں سے دور کردو اور انہیں بطور سزا تم مار سکتے ہو لیکن جو ضرب شدید نہ ہو اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردونوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔
اے لوگو!میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو،بے شک میں نے اللہ کا پیغام تم کو پہنچا دیاہے اور میںتم میں ایسی دو چیزیںچھوڑ کر جارہاہوں کہ اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔اللہ تعالیٰ کی کتاب(قرآن کریم)اور اس کے نبی کی سنت۔اے لوگو!میری بات غور سے سنواور اس کو سمجھو تمھیںیہ چیز معلوم ہونی چاہئے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے مال سے اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز لے، پس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔جان لو کہ دل ان تینوں باتوں پرحسد وعناد نہیں کرتے۔کسی عمل کوصرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا۔حاکم وقت کو ازراہ خیر خواہی نصیحت کرنا۔ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ شامل رہنااور بے شک ان کی دعوت ان لوگوں کوبھی گھیرے ہوئے ہے جو ان کے علاوہ ہیں۔جس کی نیت طلب دنیاہواللہ تعالیٰ اس کے فقروافلاس کو اس کی آنکھوں کے سامنے عیاں کر دیتا ہے اور اس کے پیشہ کی آمدنی منتشر ہوجاتی ہے اور نہیں حاصل ہوتااس کواس سے مگر اتنا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیاہے اور جس کی نیت آخرت میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کردیتا ہے اور اس کا پیشہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور دنیا اس کے پاس اتی ہے اس حال میں وہ اپنی ناک گھسیٹ کرا?تی ہے۔
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میری بات کو سنااور دوسروں تک پہنچایا۔بسا اوقات وہ آدمی جو فقہ کے کسی مسئلے کا جاننے والاہے وہ خود فقیہ نہیں ہوتااور بسا اوقات حامل فقہ کسی ایسے شخص کو بات پہنچاتاہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔ تمھارے غلام، جو تم کھاتے ہوان سے ان کو کھلائو۔جو تم خود پہنتے ہو ان سے ان کو پہنائو، اگر ان سے کوئی ایسی غلطی ہوجائے جس کو تم معاف کرنا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کردو۔اے اللہ کے بندو!ان کو سزا نہ دو۔میں پڑوسی کے بارے میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں (یہ جملہ سرکار دوعالمۖنے اتنی بار دہرایاکہ یہ اندیشہ لاحق ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑوسی کو وارث نہ بنادیں) اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لئے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی وارث کے لیے وصیت کرے۔بیٹا،بستر والے کا ہوتاہے یعنی خاوند کا اور بدکار کے لیے پتھر۔جو شخص اپنے آپ کواپنے باپ کے بغیرکسی طرف منسوب کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔ نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے کوئی بدلہ اور کوئی مال۔جو چیز کسی سے مانگ کرلواسے واپس کرو،عطیہ ضرور واپس ہونا چاہئے اور قرضہ لازمی طور پر اسے ادا کرناچاہئے اور جو ضامن ہو اس پر اس کی ضمانت ضروری ہے۔ (بخاری و مسلم وابودائود)
اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے آپ ۖنے فرمایا کہ تم سے میرے بارے میں دریافت کیا جائے گا، تم کیا جواب دوگے؟ انہوں نے کہاں ہم گواہی دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچایا، اس کو ادا کیا اور خلوص کی حد کر دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا، پھر لوگوں کی طرف موڑااور فرمایا: اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا، اے اللہ!توبھی گواہ رہنا،اے اللہ!توبھی گواہ رہنا”۔(بحوالہ:ضیاء النبی،ج٤،ص٣٥٧تا٨٥٧،سیرت مصطفی٩٩٣،سیرت رسول اکرم٧٧٢)