بینظیر بھٹو کی ساتویں برسی

Benazir Bhutto

Benazir Bhutto

دختر پاکستان ‘ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم ‘ مشفق و ذمہ دار ماں ‘ وفادار بیوی کے ساتھ پاکستانی عوام کی رہبرو رہنما کے کردار بیک وقت خوش اسلوبی سے نبھانے اور پاکستان اور عوام کیلئے جان قربان کرکے بھٹو خاندان کی روایت و امانت ‘ شہادت کی پاسداری کرنے والی بینظیر بھٹو شہید بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کی سیاست جس تزلزل کا شکار ہوئی اس کے اثرات قیام جمہوریت اور آزادی عدلیہ کے باوجود آج تک محسوس کئے جارہے ہیں

بلاشبہ دنیا میں ”ماں ” سے زیادہ میٹھا لفظ اور سَچا و سُچا رشتہ کوئی اور نہیں !
”ماں ” کہنے کو لب سے لب مَس ہوئے نہیں کہ چاروں اور روشنی کا ہالہ سا تن گیا !
یوں گمان ہوتا ہے ‘ جیسے تپتی دھوپ میں یکدم بادل کے کسی ٹکڑے نے سایہ سا کردیا ہو !
جیسے حبس آلود شام سے سُبک ‘ سجل’ خوش لمس ہوا کا کوئی جھونکا ٹکر اگیا ہو !
جیسے سلگتی ریگ صحرا پہ پہلے پہلے ساون کی بوندیں پڑنے لگی ہوں !
جیسے بے خواب آنکھوں میں ست رنگے سپنے لہرا جائیں !
جیسے بنجر کھیتی میں دورویہ گلابوں کے تختے بچھے جاتے ہوں!
جیسے دل کی ویران بستی میں من رسیا کے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگے!
جیسے زندان کے گھپ اندھیروں میں ایک روزن سا کھل جائے !
جیسے بیمار وقت آخر کو بے وجہ قرار آجائے !
جیسے جنموں کے بچھڑے ‘ برسوں کے روٹھے پھر سے آن ملیں !
جیسے صدیوں کی مسافت کے بعد کسی بے گھر ‘ بے در کو ماں کی نرم آغوش میں پناہ مل جائے !ہاں…! ماں کا تو تصورہی بس ”ماں” ہی ہوتا ہے۔
”ماں” کا رشتہ کیسا رشتہ ہے۔
شاید ہی دنیا کا کوئی بھی لفظ ‘ جملہ ‘ عبارت یا مضمون اس کا حق ادا کرسکے اور دنیا کی کوئی دولت ‘ شہرت ‘ حیثیت ‘ جنسیت ‘ محبت اور رشتہ ” ماں ” کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتے۔

ماں کی محبت ‘ شفقت اور سائے سے محروم بلاول ‘ بختاور اور آصف کو اپنی ماں کو کھوئے 5 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یہ پانچ برس ان بچوں کیلئے کس قدر طوالت انگیز ہوں گے جنہیں اپنی ماں کی کمی ہر لمحہ اور ہر لحظہ محسوس ہوتی ہوگی اور ماں سے جدائی کا غم ان کے ہر لمحے کو صدیوں سے زیادہ طویل اور پہاڑ سے بڑھ کر بوجھل کر دیتا ہوگا۔ 27 دسمبر کا عالم اقوام کی تاریخ میں پاکستان کے سیاہ باب کے طور ہمیشہ یارکھا جائے گا کہ اس دن بلاول ‘ بختاور اور آصفہ سے ان کی ماں ہی جدا نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کی قومی سیاست سے سندھ کے کردار اور جمہوری روایات کے خاتمے کیلئے بنیاد پرستوں اور دہشتگردی کا سہارا لیکر دنیائے سیاست کی معزز و معتبر ‘ دانا و مدبر ‘ نرم خو و معتدل ‘ محب و طن و عوام دوست سیاسی و سماجی رہنما اور ہردل عزیزعوامی شخصیت بے نظیر بٹھو کو قتل کرکے پاکستانی قوم پر ظلم عظیم ڈھایا گیا اور
پاکستانی نوجوانوں سے ان کی بڑی بہن جدا کردی گئی !
بزرگوں سے ان کی بیٹی کو چھین لیا گیا !
طلبأ اپنی رہنما سے محروم کر دیئے گئے !
سیاسی کارکنان لیڈر سے محروم ہو گئ !
جمہوریت پسندوں کی قائد جمہوریت ‘ انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی !
اور عوام کی مخلص و غمگسار بہن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کردی گئیں !
پاکستان میں دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے وطن عزیز کو ترقی دینے اور عوام کو خوشحال بنانے کی سعی و جدوجہد کی پاداش میں دونوں مرتبہ وزارت عظمی سے محروم کردی جانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی تاحیات چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو 28 دسمبر 2007ء جمعرات کی شام راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کے بعد اپنی رہائشگاہ واپس جاتے ہوئے خودکش حملے کا نشانہ بنائے جانے سے محفوظ رہنے کی صورت میں دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہوگئیں !

Zulfiqar Ali Bhutto

Zulfiqar Ali Bhutto

شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نے بھی اپنے باپ کی طرح عوام و پاکستان کی حفاظت اور جمہوریت کی بقا کیلئے قربانی دیکر بھٹو خاندان کی شہادت و قربانی کی روایت کے تسلسل کو آگے بڑھایا اور ملک و قوم سے اپنی آخری سانس تک وفاداری کو نبھایا ۔
بینظیر بھٹو کی جذبہ شہادت کے حصول کی تمناہی پوری نہیں ہوئی بلکہ ان کے اس قول کی تعبیر بھی دنیا نے دیکھی کہ
” میں عوام کی خاطر جیوں گی ‘ عوام کی خاطر ‘ لڑوں گی ‘ عوام کی خاطر مروں گی اور جب بھی مروں گی تو اپنی عوام کے درمیان مروں گی ”۔ 28 دسمبر شام 5 بجکر10منٹ پر اپنے خالق حقیقی کے حضورعوام و جمہوریت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والی بے نظیر بھٹو کو 29دسمبر2007 کی شام 5بجکر10منٹ پر گڑھی خدا بخش (لاڑکانہ ) میں ذولفقار علی بھٹو کے مزار میں پہلوئے پِدر میں سپرد خاک کردیا گیا
اس بات سے قطع نظر کے بے نظیر بھٹو کی شہادت سے سیاست میں کسے اور کیا فائدہ ہوگا اور ان کی شہادت کے پس پردہ کون سے عوامل ‘محرکات اور ہاتھ پوشیدہ ہیں ‘ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ان کی شہادت ملک و قوم کیلئے ہی نہیں بلکہ دنیائے اسلام کیلئے بھی ایک اندوہناک حادثے کے ساتھ ساتھ ناقابل تلافی نقصان بھی ہے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وہ واحد عوامی و سیاسی رہنما تھیں جن کی شخصیت بنیاد پرستی سے مکمل طور پر مبرا تھی ‘ بینظیر بھٹو کا شمار دنیا کی دانشور ‘ دانا ‘ تعلیم یافتہ اور لبرل و جمہوریت پسند سیاسی رہنماؤں میں ہوتا تھا اور انہیں دنیا ئے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا ۔
بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کی سیاست جس تزلزل کا شکار ہوئی اس کے اثرات آج تک محسوس کئے جارہے ہیں’ بینظیر بھٹو کی شہادت پیپلز پارٹی کی جمہوری جدوجہد میں کچھ وقت کیلئے جمود ‘ تعطل اور خلا تو ضرور پیدا ہوااور بینظیر بھٹو کے انتقال کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کا مسئلہ ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا مگر بے نظیر بھٹو کا عزم ‘ ولولہ ‘ جوش ‘ ہمت ‘ جرأت ‘ عوام سے ان کی محبت اور ان کا جمہوری کردار ان ہی کی طرح ہمیشہ عوام کے دلوں میں اَمر ہوچکا تھا جس نے کارکنان میں ایک نیا جوش و ولولہ پھونکااورقیادت کا مرحلہ طے ہوتے ہی پیپلز پارٹی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت میں ڈھل گئی ۔
ذوالفقار علی بھٹو (شہید) کے لہو سے سینچے جانے والے پیپلز پارٹی کے پودے نے ایک شجر سایہ دار کی شکل اختیار کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو آمریت کی دھوپ سے محفوظ رکھنے اور جمہوریت کی چھاؤں کیلئے جدوجہد کا فریضہ اٹھایا تھا بے نظیر کی شہادت اس شجر سایہ دار کو کچھ عرصہ کیلئے مضمحل ضرورکیامگر بے نظیر بھٹو شہید کا لہو جمہوریت کے اس درخت کی آبیاری میں وہ فسوں پھونک گیا کہ اس میں مزید نئے پھل پھول تخم و برگ اور ٹہنیوں کا اضافہ ہوا او ر پیپلز پارٹی پورے وطن عزیز کو مکمل طور پر اپنی پناہ میں لیتے ہوئے جمہوریت کا ”سمبل” بن گئی۔
بینظیر کی شہادت کے صدمے سے دوچار پاکستان کے عوام نے پرویز مشرف اور ان کی کابینہ کو انتخابات میں مکمل طور پر مسترد کرکے بینظیر کی دکھائی ہوئی جمہوریت کی راہ اختیار کرکے ثابت کردیا کہ بینظیر وہ کامیاب سیاستدان تھیں جنہوں نے عوام کی جمہوری تربیت کرکے پیپلز پارٹی کے اور ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری ورثے کو عوا م میں کامیابی سے منتقل کیا ہے ۔
بینظیر کی شہادت کے بعد ہونے والے انتخابات میں عوام نے تمام غیر جمہوری حلقوں کو مستر کرکے پیپلز پارٹی کو کامیاب بنایا اور اقتدار کا ہما بینظیر بھٹو کے رفیق زندگی آصف علی زرداری کے سر سجا تو انہوں نے مسند صدارت پر رہتے ہوئے پاکستان کو مکمل جمہوری روایات اور بینظیر و ذوالفقار علی بھٹو کے تصورات کے عین مطابق چلانے کی مکمل و کامیاب کوشش کی گوکہ ان کے ماضی کو بنیاد بناکر جمہوریت دشمنوں اور پیپلز پارٹی و عوام دشمنوں نے آصف زرداری پر بہتان و الزام لگانے اور ان کیخلاف میڈیا ٹرائل کے ذریعے ان کی ہتک اڑانے کی بھرپور کوشش کی مگر اس مرد دانا نے کسی بات کا برا نہ منایا اور افہام و تفہیم کے ذریعے تمام سیاسی حاسدین و راقبین کو بھی اپنے ساتھ ملاکر پیپلز پارٹی حکومت کی آئینی مدت کے پانچ سال کی تکمیل کا کارنامہ انجام دیا گوکہ اس عرصہ میں پاکستان میں جاری دہشتگردی و بد امنی ‘ افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی ‘مذہبی و بعض سیاسی جماعتوں کی دہشتگردوں کی اخلاقی و مادی حوصلہ افزائی و سرپرستی اور سیاست میں عدالتی رخنہ اندازی کے ساتھ دنیا کی بدلتی ہوئی معاشی کیفیت کے باعث پاکستان کے عوام جس بدحالی ‘ پسماندگی ‘ مسائل اور مصائب سے دوچار ہوئے ان کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی مگر سیاسی رقیبوں و حاسدوں کی جانب سے ان تمام قومی و عوامی مسائل و مصائب کا ذمہ دار سو فیصد آصف زرداری کو قرار دینا کسی طور درست و جائز نہیں ہے ۔

Pakistan People Party

Pakistan People Party

آج مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرح وہی پالیسیاں اپنارہی ہے جنہیں وہ ملک و قوم کیلئے خطرناک قرار دیکر پیپلز پارٹی اور صدر زرداری کیخلاف میڈیا و عوامی مہم چلاتی تھی اور تحریک انصاف (ن) لیگ ہی کی طرح حکومت کیخلاف مہم چلارہی ہے اور اگر کل تحریک انصاف اقتدار میں آجائے گی تو وہ بھی ملک کو چلانے اور اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کیلئے انہی پالیسیوں کا سہارا لے گی جن کی آج مخالفت کررہی ہے اور کل تحریک انصاف کی حکومت کی ان پالیسیوں کی مخالفت کوئی اور سیاسی جماعت کررہی ہوگی اسی کا نام سیاست ہے اور سیاست کی پہیہ کو اسی طرح چلنا ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاست اور عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کیلئے شہید بے نظیر بھٹو کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی اور ان کی کمی سے پیدا ہونے والا سیاسی خلا کبھی پُر نہیں کیا جاسکے گا کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بینظیر بھٹو اگر حیات ہوتیں تو آج ملک و قوم امن و آتشی’ بے امانی ‘بے مائیگی اور کمتری سے دوچار نہیں ہوتے اور پاکستان کا مقدمہ عالمی سطح پر بہت بہتر انداز سے لڑکر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے قومی مفادات کی نگہبانی اور حصول و یقینی بنایا جاتا اور ہم ان نقصانات سے محفوظ رہتے جو دہشتگردی کی جنگ میں شمولیت کے باعث ہمارے لئے عذاب کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں ۔

تحریر : عمران چنگیزی