آج کا یہ دن بدھ سال 2013ء کا آخری دن

Last Day 2013

Last Day 2013

آج کا یہ دن بدھ سال 2013ء کا آخری دن ہے جہاں اس سال نے پوری قوم کو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے تحفے دیے وہیں پر اس سال نے غریب آدمی سے اسکی سفید پوشی کا بھرم بھی چھین لیا جسے وہ ایک عرصہ سے اپنے ساتھ لیے پھرتا تھا اور ہمارے حکمرانوں نے اس ملک وقوم کے ساتھ جو کھیل کھیلا اور پھر اسکے نتیجہ میں قرضوں کا جو طوق ہمارے گلے میں پڑا اسکی تفصیل میں آخر میں دونگا مگر سب سے پہلے انکا تذکرہ جو دہشت گردوں کے ہاتھوں بے موت مارے گئے اگر دیکھا جائے تو پچھلے سالوں کی نسبت اس سال غربت کے ہاتھوں اور معصوم بچوں کی معصوم خواہشات کی عدم تکمیل کے باعث اپنی جان سے گذرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اس سال جہاں علماء کرام کو شہید کیا گیا وہی پر عام انسان بھی بہت بڑی تعداد میں بم دھماکوں کا نشانہ بنے سال 2013ء علماء کرام پربھی بھاری رہا رواں سال اہل تشیع و اہلسنت و الجماعت سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے 23 علماء کرام کو قتل کر دیا گیا علمائے کرام کسی بھی معاشرے کا معتبر ترین طبقہ ہوتے ہیں اور اس طبقے کی مسلسل ٹارگٹ کلنگ نہ معاشرے کے اتحاد کو پارہ پارہ کر رہی ہے بلکہ علم کی شمعیں بھی بجھتی جا رہی ہیں، اس سال 23علمائے کرام کی زندگی کا چراغ گل کردیا گیا۔

Terrorists

Terrorists

23جنوری 2013ء کو چکوال میں مولانا خالد سعید کو نے نشانہ بنایا۔ 21جنوری کو کراچی میں مفتی محمد عبد المجید دین پوری، مفتی محمد صالح اور احسان علی شاہ کو نامعلوم دہشت گردوں نے قتل کردیا۔ 11فروری کو کراچی میں قاری محمد عاصم نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ 21 فروری کو کراچی میں مولانا دلفراز معاویہ کو قتل کیا گیا۔23 فروری کو کراچی کی بھٹائی کالونی میں قاری محمد امین نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ 2 اپریل کو کراچی ملیر میں سید اشرف حسین زیدی کو ٹارگٹ کیا گیا۔ 14 اپریل کو ناظم آباد کراچی میں علامہ غضنفر علی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔ 20 اگست کو کراچی کے علاقے مارٹن کوارٹرز میں فیصل قادری کو قتل کیا گیا۔ 25 اگست کو گلشن اقبال کراچی میں مولانا اکبر سعید فاروقی قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوئے۔ 29 اگست کو جمشید ٹائون کراچی میں مولانا احمد ندیم فاروقی کو قتل کیا گیا۔ 31اگست کو کراچی اورنگی ٹائون میں ٹرسٹی آف سلمان فارسی امام بارگاہ بوستان علی کو نشانہ بنایا گیا۔ 10 ستمبر کو ناظم آباد کراچی میں سید رضا رضوی کو قتل کیا گیا۔ 9 نومبر کو گوجرانوالہ میں مولانا محمد یوسف دہشت گردی کا شکار ہوئے۔

3 دسمبر کو کراچی کے علاقے گلبرگ میں مفتی احمد اور ڈاکٹر عثمان کو نشانہ بنایا گیا۔ 6 دسمبرکو لاہور میں مولانا شمس الرحمان معاویہ کو دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ 15دسمبر کولاہور میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے علامہ ناصر عباس ملتانی کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا
اب کچھ تفصیل ان سیاستدانوں کی بھی ملاحظہ فرما لیں کہ جنہوں نے اپنی خود مختاری ورلڈ بنک اور آئی یم ایف کے پاس گروی رکھ کر ملک کو قرضوں کی زنجر میں جکڑ دیا اور انہی کی وجہ سے آج پاکستان میں آٹا مہنگا اور انسانی جان سستی ہے ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت 1977ء تک پاکستان پر قرضہ327ارب روپے تھا پھر ضیاء الحق کے دور 1988ء میں ملک کا قرضہ 290 ارب روپے تھا اسکے بعد بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت 1989ء میں 448
ارب روپے ،نواز شریف کے پہلے دور حکومت 1990میں 608 ارب روپے پاکستان پر قرضہ تھا اسکے بعد بینظیر بھٹو کو دوبارہ حکومت ملی تو دو سال کے اندر اندر 1992 ء کے آخر تک ملک کا قرضہ 908 ارب روپے ہوچکا تھا.

اسکے بعد میاں نواز شرف کو بھی دوسری باری حکومت کا موقعہ ملا تو انہوں نے سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھاتے ہوئے 1999ء تک 1398.3 ارب روپے تک کردیا تو آرمی چیف پرویز مشرف نے ملک پر قبضہ کرتے ہوئے اپنے طویل ترین دور حکومت میں 2007ء تک پاکستان کے کاندھوں پر 2610 ارب روپے قرضے کا بوجھ چھوڑا پرویز مشرف کے این آر او کے طفیل اپنے پچھلے گناہ بخشوانے والے آصف علی زرداری پاکستان کھپے اورجمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ایوان اقتدار میں داخل ہوئے اور مفاہمت کی سیاست کو پروان چڑھاتے چڑھاتے انہوں نے ملک کو قربان گاہ بنا دیااور انکے دور اختتام تک یعنی اسی سال 2013ء ملک پر قرضوں کا بوجھ 14000ارب روپے تک جا پہنچا اور ابھی تو نواز شریف کو آئے ہوئے بمشکل ایک سو دن پورے ہوئے ہیں اور سال 2013ء اختتام پذیر ہو رہا ہے اور ملک پر قرضوں کا بوجھ 18795 ارب روپے تک جا پہنچا ہے اور میاں صاحب نے ابھی تقریبا ساڑے چار سال مزید حکومت کرنی ہے اور اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان سے غربت ختم ہوتی ہے یا غریب ہی ختم ہو جائیں گے اللہ پاکستان اور پاکستان کی عوام پر رحم فرمائے (آمین)۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر
03466444144