2013کے آخری دن میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ممکن ہے جب یہ سطور آپ پڑھ رہے ہوں نیا سال شروع ہو چکا ہو لیکن میں بیتے ہوئے سال کا قرض اتار نے کی ایک کوشش کر رہا ہوں یہ کالم مجھ پر جیسے قرض تھا۔ اس تنظیم کی تاسیس 23 دسمبر 1947ء کو قیام پاکستان سے فقط 3 ماہ بعد لاہور شہر میں 25 طلبہ نے جمع ہو کر کی۔ یہ طلبہ لاہور اور پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھتے تھے۔ان مٹھی بھر نوجوانوں نے عزم کر لیا تھا کہ اپنی جانیں اور اپنی ساری توانائیاں اللہ کی راہ میں صرف کرنی ہیں۔ نیک عزم لے کرسفر کا آغاز کرنے والے چند نوجوانوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ دیکھنے والوں نے دیکھا پھر ان طلبہ کی تنظیم نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک مسلسل جدوجہد، بے مثال قربانیاں اور خدمات انجام دیں۔ اسی تنظیم کے لوگوں نے سو شلزم اور دوسرے نظریات کو تعلیمی اداروں میں شکست فاش دی۔ طلبہ کے اسی گروہ نے سقوط ڈھاکہ کے وقت اپنے ہزاروں کارکنان کی سماتی متصل کو پاکستان پر قربان کر دیا۔
پاکستان میں ختم نبوت تحریک ہو یا قادیانی کو کافر قرار دینے کی تحریک یہ تنظیم بھرپور جدوجہد کرتی نظر آتی ہے آغا خان بورڈ ہو یا بورڈ آف گورنر اس تنظیم نے نے سیکو الرزم نظام کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی۔ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے تعلیمی اداروں کے ماحول کو ہمیشہ پر امن اور پر سکون بنایا۔ طلبہ کی اس تنظیم نے تعلیمی اداروں میں فولنگ جیسی فرسودہ روایا ت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔ تعلیمی اداروں میں آنے والے نئے طلبہ کو خوش آمدید کہنے کی ریت شروع کرنے کا سہرا بھی اسی تنظیم کے سرہے۔ طلبہ کی یہ تنظیم تعلیمی اداروں میں آنے والے نئے طلبہ کی راہنمائی کے لئے استقبالیہ کیمپ لگاتی ہے۔ ہر سال لاکھوں وطلبہ کی راہنمائی کرتی ہے۔
تعلیمی اداروں میں نو واردان کا پھولوں سے استقبال کیا جاتا ہے اور ان کے اعزاز میں استقبالیہ تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور تعلیمی ادارے میں بھی قدم بہ قدم ان طلبہ کی راہنمائی کی جاتی ہے۔ فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو یا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہو۔ طلبہ کی B.S کی ڈگری کا مسئلہ ہو یا تعلیمی اداروں میں سہولیات کی کمی اس تنظیم کے لوگ آگے بڑھتے ہیں اور ہر معاملہ میں طلبہ کے ساتھ مل کر جدوجہد کرتے ہیں ۔ ہر سال شعبہ بلڈ بینک کے تحت ہزاروں طلبہ فی سبیل اللہ مریضوں کو بلڈ عطیہ کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت بھی کرتے ہیں۔
بک فیئر اور ٹیلنٹ ایوارڈ جیسی سرگرمیاں بھی منعقد کرواتے ہیں۔ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے نوجوان آپ کو تعلیمی اداروں میں مثبت سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے نظر آئیں گے۔دنیا اس تنظیم کو اسلامی جمیعت طلبہ کے نام سے جانتی ہے۔ امسال بھی اسلامی جمعیت طلبہ لاہور نے ایوان اقبال میں میٹرک ،انٹر میڈیٹ O لیول اور A لیولز میںA گریڈ حاصل کرنے والے ایک ہزار سے زائد ذہین طلبہ و طالبات کوایوارڈز سے نوازا۔ اس تقریب میں 2500 سے زائد طلبہ نے شرکت کی راقم الحروف کو بھی اس تقریب میں شرکت کرنے کا موقع ملا تقریب میں طلبہ کا جوش وخروش قابل دید تھا۔ اس پروگرام میں لاہور بھر کے 40 سے زائد تعلیمی اداروں کے طلبہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے شیلڈ اور اعزازی سرٹیفیکیٹ سے نوازا گیا۔
Dr. Abdul Qadeer Khan
پروگرام میں پاکستان بھر میں میتھ کے مقابلہ میں اول پوزیشن لینے والے طالب علم کو اعزازی شیلڈ دی گئی۔ پروگرام کے مہمان خصوصی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے ان طلبہ کو اعزازی شیلڈ سے نوازا جنہوں نے اپنی محنت اور لگن کے ساتھ میٹرک اور انٹر کے امتحانات میںاچھے گریڈز کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ جب محسن پاکستان کو سٹیج پر بلایا گیا توہال بہت دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ مستقبل کے معمار جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان محسن پاکستان ہیں ،ایک آمر نے قوم کو کنفیوز کرنے کی کوشش تھی لیکن قوم اپنے محسن کو جانتی ہے۔معاف کیجیے گا قلم ذرا بھٹک گیا۔۔۔!میں نے جب بھی محسن پاکستان کو جمیعت کاذکر کرتے دیکھا ان کی آنکھوں میں چمک صاف دکھائی دیتی محسن پاکستان خود بھی اس قافلہ سخت جاں کاحصہ رہ چکے ہیں وہ یہ بات فخر سے بتاتے ہیں۔
پروگرام میں ایک ہزار سے زائد طلبہ و طالبات کو اعزازی شیلڈ سے نوازا گیا۔آنے والے مہمانان اور طلبہ نے پروگرام کو سراہا اور جمعیت کے کارکنان کو کامیاب پروگرام کے انعقاد پر مبارک باد پیش کی۔ بلاشبہ یہ اسلامی جمعیت طلبہ کا ہی اعزاز ہے کہ اس نے لاہور بھر کے 40سے زائد تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے ہونہار طلبہ کو ایک ہی چھت تلے جمع کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اساتذہ اور والدین اس موقع پر بہت پرجوش دکھائی دیے انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کی عظیم کاوش پر جمعیت کو مبارک باد پیش کی۔صالح نوجوانوں کا قافلہ جو 23دسمبر 1947ء کو پھول بلڈنگ لاہور سے 25نوجوانوں کی صورت میں چلا تھا آج خیبر تا کراچی سینکڑوں صالح نوجوان اس قافلہ سخت جاں کا حصہ ہیں۔
گزشتہ دنوں جمیعت کو دہشت گرد تنظیم کا نام بھی دیا گیا،ایشیاء کی سب سے بڑی درسگاہ میں طلباء کے کمروں میں سے شراب بھی برآمد کروائی گئی۔ ایک طرف کچھ اساتذ ہ جنہوں نے اپنے پیشے کے تقدس کا خیال بھی نہ رکھاطلبا کو دہشت گرد ثابت کرنے پہ تلے ہوئے تھے میں اساتذہ سے بھی ملا مجھے حیرت ہوئی کچھ اساتذہ جو کبھی بھی جمیعت کے حامی نہیں رہے وہ اساتذہ بھی کہہ رہے تھے کم از کم جمیعت کے نوجوان اس طرح کی منفی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہو سکتے یہ صرف جمیعت کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ آپ کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس تنظیم کے سابقین ملیں گے مفکر قرآن ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم حافظ سعید،جاوید ہاشمی،سراج الحق،سید منور حسن،احسن اقبال،لیاقت بلوچ ،نعمت اللہ خان ،سید وقاص جعفری صحافت کے میدان میںاوریا مقبول جان،مشتاق منہاس،نصراللہ ملک اور کتنے بڑے بڑے نام جن کے کردار کی گواہی آج بھی لوگ دیتے ہیں۔ مولانا ابواعلی مودودی کا لگایا ہوبیج ا آج شجرسایہ دار بن چکا ہے۔ان صالح نوجوانوں کودیکھ کران کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ اللہ کے شیروں محمد عربی کے غلاموں اور صالح نوجوانوں کا یہ قافلہ رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے گا۔
باطل سے کبھی حق نہ دبا ہے نہ دبے گا روکے سے یہ سیلاب رکا ہے نہ رکے گا