اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق صدر پرویز مشرف کو دل کی تکلیف پر راولپنڈی کے آرمی اسپتال منتقل کر دیا گیا انہیں علاج کیلیے بیرون ملک بھجوانے پر غور کیا جا رہا ہے تاہم وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ حکومت نے سابق صدر کو بیرون ملک منتقل کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، انہیں ریلیف عدالت ہی فراہم کر سکتی ہے۔
پرویز مشرف غداری کیس میں خصوصی عدالت میں پیش ہونے کے لئے پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی سخت سیکورٹی میں صبح سوا گیارہ بجے چک شہزاد میں اپنے فارم ہاؤس سے نکلے۔ روٹ پر ڈیڑھ ہزار سے زیادہ سیکورٹی اہلکار تعینات تھے جبکہ عدالت کے باہر بھی سیکڑوں سیکورٹی اہلکار، کیمرہ مین، میڈیا کے نمائندے الرٹ تھے۔ پرویز مشرف کا قافلہ راول ڈیم پہنچا تو پرویز مشرف کو دل کی تکلیف ہوئی جس پر قافلے کا رخ راولپنڈی کی طرف موڑ دیا گیا۔
ایمرجنسی وارڈ میں ابتدائی طبی معائنے کے بعد پرویز مشرف کے مختلف ٹیسٹ کئے گئے جس کے بعد ڈاکٹروں نے تمام رپورٹس کو کلیئر اور پرویزمشرف کی حالت خطرے سے باہر قرار دے دی۔ سابق صدر کو آئی سی یو میں شفٹ کر کے میڈیکل بورڈ بنا دیا گیا۔
پرویز مشرف کی اہلیہ اور بیٹی بھی اسپتال پہنچ گئیں۔ وکلا کے مطابق پرویز مشرف کی طبیعت منگل کی شام سے ہی خراب تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے خصوصی عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا اس کے بعد اسپتال میں عام افراد کا داخلہ بند کر دیا گیا اور فوج نے اسپتال کی سیکورٹی سنبھال لی۔
لیفٹیننٹ کرنل کی سربراہی میں 61 فوجی جوان سیکورٹی پر تعینات کر دیئے گئے۔ ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کو علاج کے لئے بیرون ملک منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے تاہم اس بارے میں فیصلہ میڈیکل بورڈ کی سفارش اور خصوصی عدالت سے اجازت ملنے کے بعد ہی کیا جائے گا تاہم وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک منتقل کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا انہیں ریلیف عدالت ہی فراہم کر سکتی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ملک میں علاج و معالجے کی تمام سہولتیں موجود ہیں تاہم اگر عدالت نے بیرون ملک بھجوانے کی اجازت دی تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔