اللہ تبارک و تعالیٰ نے بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا”انا ارسلنک شاہدا و مبشراو نذیرا لتئومنو ا باللہ و رسولہ و تعزروہ و توقروہ و تسبحوہ بکرة واصیلا ”ترجمہ بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی و ڈر سناتا تاکہ اے لوگوں تم اللہ اور اسکے رسول پہ ایمان لائو اوررسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو (سورہ فتح آیت ٩۔٨)اس آیہ کریمہ میں اہل اسلام کوعبارة النص بتا دیاگیا کہ بعثت نبوی کے تین مقاصد ہیں(ا)تاکہ اے لوگوں تم اللہ اور اس کے رسول ۖ پہ ایمان لائو(٢)اوررسول کی تعظیم و توقیرکرو(٣)اور صبح شام اللہ کی پاکی بولو۔ ایمان باللہ کے بعدمحبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسبیح خدا وندی سے مقدم رکھا۔ کہ ایمان کے بِن محبت و تعظیم مصطفی ۖ کارآمد نہیں ہو سکتی اور تعظیم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بِن اعمال صالحہ کا کوئی انتفاع ممکن الحصول نہیں۔ کیونکہ اشرف المخلوق جو کہ عالم کائنات میں تمام مخلوق باعتبار درجات کے افضل و اعلی ہے اور اس ہی حضرت انسان کو اللہ تعالی نے اپنی خلافت سے بھی نوازا اورحضرت انسان کی خلافت کااعلان تخلیق آدم سے قبل مجلس ملائکہ میں کیا جسکا ذکر قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا کہ ”انی جاعل فی الارض خلیفہ”ترجمہ میں زمین پہ خلیفہ بنانے والا ہو (القران سورہ بقرہ)لیکن یہ انسان اس شرف پہ فائز ہونے کہ باوجود بسا اوقات ایسی حرکتیں ہو جاتی ہیںکہ یہ پستیوں کہ راہ کا مسافر ہوکر اسفل السافلین تک پہنچ جاتا ہے۔
اور یہ سلسلہ ہر نبی کے دور نبوت کے بعد ہوتا رہا کہ جیسے ہی وہ نبی اللہ علیہ السلام اس دنیا سے تشریف لے جاتے تو امت شرک کے عمیق گڑھے میں اتر جاتی یہاںتک کہ موسی علیہ السلام صرف چالیس دن کے لئے کوہ طور پہ گئے تو امت مبتلاء ِشرک ہو گئی اور یہ سلسلہ بعثت نبوی علیہ الصلوة والسلام تک جاری رہا اس ہی واقع کے متعلق اللہ نے امت مسلمہ کو مخاطب کرتے ہو ئے فرمایا کہ ”وکنتم علی شفا حفرة من النارفانقذکم منہاکذلک یبین اللہ لکم اٰیتہ لعلکم تھتدون”ترجمہ اورتم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں بچا دیا اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پائو (سورہ ال عمران آیت ١٠٣)حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کل انسانیت کو نہ صرف اس دنیا کی زندگانی بلکہ ابد الآباد تک رہنے والی زندگی کو بھی ہمیشہ کے لئے عذاب نار سے محفوظ و مامون کر دیا اس لئے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہو گانہ صرف وہ دنیا میں حیات طیبہ گزارے گا بلکہ وہ کل بروز قیامت عذاب نار سے بھی محفوظ ومامون ہو کر جنت میں مقیم ہو کرابدی حیات عیش و عشرت میں بسر کرے گا۔
مگر ہم نے ان تعلیمات کے بر عکس کچھ ایسے معاملات ہیں جن کو عند الاسلام صرف و صرف مستحبات ہیں ہم نے ان کو فرائض سے بھی مقدم کر لیا اور حقیقی طورپہ جو اسلامی تعلیمات فرض یاواجب تھی ان کو ہم نے نسیامنسیا کر دیا اور اس مستحبات کی خاطر ہمارے فرائض و واجب فوت ہوتے چلے گئے مثال کے طورپہ محفل میلادہے جسمیں نعت خوانی مستحب اور سماعت نعت سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کیونکہ خود زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان نعت خوانی کرتے تھے اور درباری شاعر حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ تومشہور و معروف ہیںاور ان کا ایک شعر بھی زبانِ خاص و عام ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کرتے ہیں کہ ”واحسن منک لم تر قط عینی۔ واجمل منک لم تلد النسائ۔۔خلقت مبراء من کل عیب۔۔کانک قد خلقت کما تشاء ”ترجمہ میری آنکھ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہ دیکھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کسی عورت نے جنا ہی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام عیوب و نقائض سے پاک پیدا کیا گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپۖکی مرضی کے مطابق پید فرمایا (تفسیر آلوسی زیرآیت سورہ یونس آیت٢و مغنی المحتاج الی معرفة الفاظ المنہاج) مگر کبھی ایسا تو نہ ہو ا کہ اس نعت خوانی کی بناء پہ کسی بھی صحابی نے ترک واجب یا فرض کیا ہو یاکوئی فرض و واجب میں کوتائی کاذکر ملتا کسی کتاب میں مذکور ہو ۔یہ انکا ذوق تھا محبت تھی چاہت تھی خلوص تھا لیکن فرائض و واجبات کی پابندی ضروری ولازمی فرماتے تھے مسلمان کے ساتھ ادائیگیِ فرائضِ وواجبات لازم وملزوم ہیں۔
اگر کوئی مسلمان فرائضِ و واجبات کی پابندی کرے گا توجب ہی تو وہ کامل مومن ہونے کا حق دار ٹہرے گا۔ نعت پڑھنا مستحب اور سماعتِ نعت مسنون ہے اس کا تارک نہ تو گنہگار ہے اور نہ ہی عند الشرع معتوب ہے۔اگر کوئی شخص نعت خوانی کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ من جانب اللہ مقرر کردہ فرائضِ و واجبات کا پابند ہے تو یقینا ایسا شخص نہ صرف قابل تحسین ہیںبلکہ قابل تقلید بھی ہے اگرایک شخص ساری شب محفل نعت میں بیٹھا رہا اور اسکی صلوة ِفجریا جماعتِ فجر فوت ہو گئی تو یقینا یہ کام کسی بھی صورت میں درست نہیں کیونکہ محفل میلادایک مستحب کام ہے اور نماز فجر فرض اور فرض کا منکر کافر ہے اورترک کرنے والا فاسق و معلن و مردود الشہادةہے۔ جب کہ مستحب کے نہ کرنے والے پہ کوئی گناہ نہیں۔
Quran
اور ترکِ صلوةپہ جو وعیدیں قران و حدیث میں مرقوم ہیں وہ توہی ہیں۔ اور اگر دنیا میں اسلامی حکومت ہوتی تو ایسے شخص کومذہبِ ائمہ ِ ثلاثہ پہ قتل کیا جاتا۔ یا پھرفقہ حنفی کے مطابق مقید ومحبوس ہوتا تاحال کہ وہ اس گناہ کبیرہ سے اپنے آپ کو بازرکھتا۔اور یہ بے نمازی کے لئے یہ سزائیں ائمہ اربعہ کے نزدیک راجح ہیں اور ان کی تصریحات کتبِ فقہ میںموجود ہیں۔ امام مالک وامام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک تارک صلوة کو قتل کیا جائے مگر ان کے نزدیک یہ قتل ازرئے حد (سزاء دیتے ہو ئے)کے ہے۔اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیںکہ بے نمازی کا قتل واجب ہے البتہ امام اعظم ابو حنیفہ اور اہل ظاہر کا مذہب یہ ہے کہ تارک صلوة کو مقید و محبوس کیا جائے تاحال کہ وہ پابند صلوة ہو جائے(الدر المختارعلی رد المختار)۔ اگر نعت خوانی سننے میں ان باتوں کا خیال رکھا جائے تو یقینا پھر تو نعت خوانی لازم ہو نی چاہیے۔ کیونکہ نعت خوانی سے دل میں ایک خاص وجد و روحانیت محسوس ہوتی ہے اور عوام کے لئے دین سے منسلک ہونے کا ایک ذریعہ بھی ہے اور یہ ہی طریق صاحبہ کرام علیم الرضوان کا رہااور عنداللہ بھی وہ ہی طُرُق مقبول ومنظورہیں جو صحابہ کرام کے ہو ں اور یہاں تک کہ مقبولِ ایمان کے لئے بھی شرط طریقِ اصحابہ کرام ہیں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ ”فان امنو بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدواوان تولوا فانما ھم فی شقاق فسیکفیکھم اللہ وھو السمیع العلیم”ترجمہ پھر اگر وہ یوں ہی ایمان لائیں جیسے تم لائے جب تو وہ ہدایت پاگئے اور اگروہ منہ پھریں تو وہ نری ضد میں ہیں تو اے محبوب عنقریب اللہ انکی طرف سے تمہیں کفایت کرے گا اور وہ ہی سنتا جانتا (سورة بقرہ آیت١٣٧ )ورنہ حضورۖ کی نعت خوانی تو کفار بھی کرتے آئے ہیں بلکہ انہوں نے تو سیرة النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ سینکڑوں صفحات پہ مشتمل کُتُب کو تصنیف و تدوین کیا۔
کرنل دار سنگھ کی کتاب سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک اقتباس حاضرہے ”اے کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیوتم ہی کچھ کہوسینکڑوں ریشیوں نے تمہاری شفقت او رپیار کی گود میں نواس کئے۔ صدہا جو گیوں نے تمہارے’ تمہارے پہلوئے محبت میں جو گ کمائے ہزاروں تپیشیروں نے تمہاری آغوش الفت میں تپ دھارے ۔لاکھوں گورئوں نے تمہارے ہاں چرن کنول ڈالے ۔ اے کوہ ہمالیہ مگر سچ کہنا کہیں دیکھا ہے تو نے وہ مکہ کا راج دلارا کہیں نظر پڑا ہے تجھے بھی وہ مدینہ کا پیارا۔ اے تاجدار حرم سنتے ہیں تیری چھپ عجب موہنی تھی اور تیرا روپ انوپ تھا اے دلدار عرب کہتے ہیں تیری پریت کی جوت جس من میں جگی وہ بجھائے نہ بجھی جس آنکھ پر تیری نگاہ پڑی وہ پھر تیری ہی ہو رہی ”اسکے بعد کرنل دارا سنگھ نے چند اشعار بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بطور نذرانہ پیش کئے دیکھیئے یہ کوئی مسلم و مومن نہیں بلکہ اسلام کے مخالف مذہب سے وابسطہ ہے مگر اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتنی مدحت سنی کہ وہ انکی مقدس ذات پہ ایک کتاب لکھنے پہ مجبور ہو گیا کہ اسکے ذہن میں ذات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ اتنا مواد جمع ہو گیا کہ جس کو صفحہ قرطاس پہ لائے بن وہ اپنے ضمیر کو مطمئن نہ کر سکا۔
مگر یہاں پہ ایک سوال ہے کہ کیااس کی یہ کتاب اسکو کوئی فائدہ دے سکے گی تواس کاجواب بھی یقینا قران مجیدمیں موجود ہے کہ کفار کے تمام اعمال صالحہ کاروزجزاء کوئی عوض نہیںملے گاجیساکہ خودقران حکیم اس شاہد وگواہ ہے ارشادخداوندی ہے کہ ”عاملة ناصبة تصلی ناراحامیة”ترجمہ کام کریں مشقت جھلیںجائیں بھڑکتی آگ میں(غاشہ آیة ٤۔٣) اس ہی طرح نعت خوانی تو صرف نعت خوانی ہے اس نے سیرة پہ ایک مکمل کتاب لکھی مگر بے فائدہ اس لئے ہمیں کفارومشرکین کے طریقے و راستے کوچھوڑ کے صحابہ کرام کے طریق پہ چلنا چاہیے ایکطرف تو ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشیاں منائیں اور دوسری طرف ان کے بتائے گئے احکام سے رو گردانی کریں تو یہ کسی بھی طرح قابل تحسین نہیں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ درس دیا کہ ہم والدین کی عزت کریں ان کی تعظیم کریں ان کا کہا مانے لیکن ہم اس پہ کوئی توجہ نہیں دیتے اس ضمن میں میں عرض کرتا چلوں کہ مام محمد بن اسماعیل البخاری نے حضرت ابو بکرة سے ایک حدیث پاک نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ ”قال قال رسول اللہ الاانبئکم کم باکبر الکبائرقلنابلی یارسول اللہ قال الاشراک باللہ وعقوق الوالدین”ترجمہ فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے صحابہ میں تمہیں سب سے بڑھے گناہ کے متعلق نہ بتاو صحابہ کرام نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسولۖ ہاں تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور اپنے والدین کی نافرمانی کرنا (بخاری کتاب الادب باب عقوق الولدین من الکبائر) قران مجید میں ارشاد ہے کہ”و اذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل لاتعبدون الا اللہ وبالوالدین احسانا وذی القربی والیتامی ولمساکین ”ترجمہ کنز الایمان جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے(سورة بقرہ آیت٨٣)اس آیہ مبارکہ میں اللہ تعالی نے جو احکام بیان کئے وہ تمام کے تمام بعد میں بیان کئے سب سے اول توحید کو رکھا اور اسکے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اور اسکے بعدبقیہ احکام کو۔ اس آیہ کریمہ سے مقام والدین واضح انداز میں معلوم ہو گیا اور مزید یہ کہ اللہ تعالی ہر اس چیز کی مما نعت فرماتا ہے۔
جو والدین کی تکلیف و اذیت کا سبب بنے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے ”ولاتقل لھما اف ولاتنھر ھماو قل لھما قولا کریما”ترجمہ کنزالایمان تو ان سے ہوں نہ کہنااور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔(سورة بنی اسرائیل آیت٢٣) ہم پہ یہ بات لازم ہیکہ ہم محفل میلاد بھی کریںاورساتھ ساتھ میںاللہ اوراسکے رسول ۖ کے احکام پہ عمل پیراہو تے ہو ئے والدین کی نافرمانی سے بھی بچیں۔ان ہی خرافات میں سے جو جہال نے عام کر کے اہلسنت کو بدنام کرنے کی سازش کر رکھی ہے ایک یہ بھی ہے کہ گلی محلوںمیں یامسجدمیں عوام کم ہوتی ہے اور ان کے لئے مائک کی بھی حاجت نہیں ہوتی مگرپھر بھی دیر تک مائیک کااستعمال کر کے بچوں اور بیماروں کے آرام میںخلل ڈالا جاتاہے اسطرح ساری ساری رات پورے پورے محلے کوشب بیداری کرنی پڑتی ہے۔ جس سے نہ صرف مسلمان بھائیو ں کو تکلیف ہو تی ہے بلکہ وہ ایسے محفل سے بھی بد ظن ہو کر کبھی ایسی بات بول دیتے ہیں جسکا کہنا صراحة کفر ہو تا ہے اس لئے ایسے کام سے اجتناب فرض ہے ۔یہ کیا فائدہ ہواکہ ایک مستحب کام کوکرنے کے لئے ایذاء مسلم میںپڑھیں حالانکہ صاف لفظوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایذاء مسلم سے منع فرمایا ہے۔
امام محمد بن اسماعیل البخاری علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں کہ ”عن ابی موسی اشعررضی اللہ تعالی عنہ قال قالوا یارسول اللہ ای الاسلام افضل قال من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ”ترجمہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ لوگوں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نسا اسلام افضل ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کے زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں(صحیح البخاری کتاب الایمان)یہاںتک تو افضلِ اسلام کی بات ہوئی مگراس ہی باب میںایک اور حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسلما ن کی تعریف پوچھی گئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ”ترجمہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں(صحیح البخاری کتاب الایمان)اس لئے اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر محفل میلاد میں کم لوگ ہیںتو مائیک کی اتنی ہی آواز ہوجس سے سامعین تک آواز بآسانی پہنچ سکے اور دوسروں کو اس سے کوئی اذیت و تکلیف بھی نہ ہواور اگر عوام زیادہ ہے تو پھر بھی اس وقت تک ہی محفل کو جاری و ساری رکھیںجس میں لوگ شریک ہوکرسعیِ صلوةِفجرمیں دقت نہ ہو۔اوران ہی خرافات میں سے ایک خرافات یہ بھی ہے کہ کھانے کا ضیاع ہوتا ہے جیسا کہ آجکل بالعموم بعدِ محفل میلادو جلوس میلاد لنگر کا اہتمام ہو تا ہے اور یقینا ہو نا بھی چاہیے کہ لوگوں کو کھانا کھلانا صدقہ جاریہ بھی ہے تو ثواب دارین بھی۔
کیونکہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اسلام میں کونسا عمل بہتر ہے ۔خیر العمل کاذکر کرتے ہو ئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ”قال تطعم الطعام ”ترجمہ فرمایا کھانا کھلانا(صحیح البخاری )تطعم دو مفعولوں کو چاہتا ہے اگر اس کا مفعولِ اول محذوف ہو تو اس وقت اس سے عموم مراد ہو تا ہے یعنی تم سب مخلوق کو کھانا کھلائو خواہ وہ غریب ہو یا امیر ہومالدار ہو یا غیر مالدارانسان ہو یا غیر انسان جیسے کہ حیوانات وغیرہم۔یہاں تک تو ہمارا یہ معمول درست ہے مگر آج کل ایک بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اس کھانے کو پھینکاجاتا ہے جس میں یہ کھانا زمین پہ گر جاتاہے جس سے کھانے کی بے حرمتی ہو تی ہے ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جنکا میلاد ہم مناتے ہیں یہ ان ہی کا فرمان ہے کہ ”اذا اکل احدکم طعامافسقطت لقمتہ فلیمط مارابہ منہاثم لیطعمہاولایدعھاالشیطان”ترجمہ جب تم میںسے کوئی کھانا کھا رہاہو اور اس کا لقمہ گر جائے تو شک میں ڈالنے والی چیز کو الگ کر کے کھا لے اور شیطان کے لئے نہ چھوڑے(جامع الترمذی باب الاطعمة)اس لئے ہمیںچاہیے کہ ہم تقسیمِ طعام کے وقت اس بات کا خیا ل رکھیںکہ کھاناقطعی طور پہ ضائع نہ ہو اللہ کے رسولۖ جب اس ایک لقمہ کے بارے میں اتنی تاکید فرما رہیں ہیں کہ اس کو شیطان کیلئے نہ چھوڑوں تو پھر اس کا کیا حال ہوگا جو اتنی مقدار میںضائع ہو تا ہے اس لئے اس کی حفاظت کامعقول انتظام ہونا چاہیے اس ہی طرح محفل میلاد ہو یا جلوس میلاد مصطفی ۖ ہو۔اس بات کا خیال رہے کہ کوئی بھی ایسا کام نہ ہوجو تعلیمات اسلام یعنی احکامِ قران و حدیث کے مخالف ہو ۔جس سے لوگ بدظن ہو کر اسلام اورشعائر اسلام میں شکوک شبہات میں پڑھیں۔