سمجھ میں نہیں آتا کہ بات کہاں سے شروع کی جائے، کالم نگاروں کی یہی تو مصیبت ہے کہ ”سچ” لکھ دو تو کسی نہ کسی کی حمایت کا چھاپ لگ جائے گا، اور چاپلوسی سے بھرپور مضمون لکھ دیا جائے تو سب واہ واہ کرتے نہیں تھکیں گے۔ حالانکہ کالم نگاروں نے ہر معاملے میں اپنی اوّلین ذمہ داری کو نبھایا ہے اور سچ ہی لکھا ہے، اور سچ بھی اس لیئے لکھا جاتا ہے تاکہ سچائی کی روداد اربابِ اقتدار تک صحیح پہنچ جائیں۔ آج دماغ میں سنسناہٹ سی ہے، اور لفظوں کا ایک جمِ غفیر دل اور دماغ کے آگے پیچھے گنگنا رہے ہیں کہ مجھے لکھو، مگر دیکھئے کہ کیا تحریر ہوتا ہے کیونکہ ایک ہی مضمون میں کئی کئی کرداروں کا ذکر کرنے جا رہا ہوں۔ بہرحال کوشش کرتا ہوں کہ صرف سچائی کا ہی پرچار ہو، اور قلم سچائی لکھنے پر ہی بضد رہے۔
ویسے تو ہمارے ملک کو آزاد ہوئے 67 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد ہمیں اس بات کا شعور آیا کہ رشوت خوری کو روکنے کے لیئے کوئی سخت قانون ہونا چاہیئے۔ دہشت گردی پر مذاکرات ہونے چاہیئںیا نہیں ہونے چاہیئں،بیروزگاری پر کیسے کنٹرول کیا جانا چاہیئے، لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ابھی تک جوں کا توں ہے کیونکہ پاکستان بھر میں اس وقت جاڑا اپنے جوبن پر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ ایئر کنڈیشنر چل رہا ہے اور نہ ہی پنکھے، پھر بھی دو دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ دن میں تین بار پابندی سے کی جا رہی ہے۔اس وقت پاکستان میں کوئی اپنی صحیح ذمہ داری اگر نبھا رہا ہے تو وہ ہے پاکستان کے بجلی گھروں میں بیٹھے ہوئے افراد جو وقتِ مقررہ پر لوڈ شیڈنگ کا سوئچ آن اور آف کرتا ہے۔ پھر حکومت سب کچھ حل کرنے کا بیان دیتے نہیں تھکتی، خیر کوئی بات نہیں، دیر آید’ درست آید۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج سے پہلے یہ سب بیماریاں ہمارے ملک میں نہیں تھیں، اگر تھیں تو ان سب کی چھوٹ کس نے دی تھی؟ کس نے رشوت کا بیج بویا، کس نے بے روزگاری پیدا کی، کس کس نے مہنگائی کی عفریت کو ہوا دی، اور کس کس نے ان تمام پودوں کی نشو و نما کرکے اسے اس قدر سایہ دار درخت بنایا کہ اس کی چھائوں میں ہر سرکاری محکمہ پُر سکون زندگی گزار رہا ہے۔ پہلے بھی کیا دور گزر ا ہے ‘ جو یقینا اب کبھی واپس لوٹ کر نہیں آ سکتا، ہر طرف امن و امان، بھائی چارگی، دوستی و محبت دیکھنے میں آیا کرتا تھا مگر آج یہ تمام لفظ ناپید ہو چکے ہیں۔
پہلے پاکستان کے ہر طبقے پر ‘ہر فرقے پر’ ذات جماعت کے افراد کا خیال رکھنا اس بات کو پیش نظر رکھنا کہ کوئی فرقہ کوئی طبقہ کسی قسم کے ظلم و ناانصافی کا شکار نہ ہو جائے۔ سماجی، سیاسی، معاشی ہر شعبے میں عدم مساوات کی بیخ کنی کرتے ہوئے مساوات قائم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مگر آج ان تمام چیزوں سے بھی عوام محروم ہو چکے ہیں۔ آج پاکستان کا ہر قریہ ہر گوشہ علم کی روشنی سے منور ہونے کے بجائے تعلیم سے کوسوں دور دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک چیز جو تعلیم سے بھی زیادہ ترقی پاتی گئی وہ تھی رشوت خوری ، بدعنوانی اوربے روزگاری۔ اس وقت ہر جماعت اپنی اچھائی کے گُن ہی گارہا ہے، مگر کسی نے بھی سوائے اخبار اور میڈیا کے بیانوں سے زیادہ ان تمام حل طلب مسائل کی طرف عملی قدم نہیں اٹھایا۔ شہرِ قائد میں آپریشن جاری ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ تیسرا دور شروع ہو چکا ہے مگر آج بھی یہاں دس سے پندرہ لاشیں روز لواحقین دفنانے پر مجبور ہیں۔
Musharraf
سابق صدر مشرف کا چرچا آج زبان زدِ عام ہے، کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ، بلدیاتی الیکشن برفانی ہوائوں میں دفن ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ شہری آبادی کی نمائندہ جماعت اگر کچھ کڑوا سچ کہہ دے یا کوئی بیان دے دیں تو پورا ملک اس پر سراپا احتجاج بلند کرتا ہوا پایا جاتا ہے، بغیر یہ جانچے، پرکھے کہ ایسا بیان کیوں دیا گیا، کیا شہرِ قائد کے باسیوں کے ساتھ ناانصافی روا نہیں رکھا گیا ہے، سب سے بُرا عمل کوٹہ سسٹم ہے جو آج بھی رائج ہے۔جس سے شہریوں کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ گرائونڈ ریالٹی کو پرکھے بغیر کسی بھی ذی شعور شخص کے لیئے اختلافی بیان داغ دینا نیک شگون نہیں، آج ملک میں دیکھیں تو ہر طرف بے روزگاری، غربت، مہنگائی کی مار، فسادات کا ستم، حکومت کی غفلت جاری ہے۔ کیا حالاتِ حاضرہ اور سرسری سا جائزہ ہمیں یہ سمجھانے کے لیئے کافی نہیں ہے کہ آج ہر کوئی اپنی دکان چمکا رہا ہے اور عام آدمی کے لیئے کوئی کچھ کرنے کو تیار نہیں سوائے اس کے ببانگِ دہل اخبار و میڈیا پر غریبوں کا چرچا کر دیا جائے کہ ہم اُن کے لیئے ہی سب کچھ کر رہے ہیں۔ اگر سب کچھ عام آدمی کے لیئے ہو رہا ہے تو اس کے ثمرات ابھی تک اُن تک کیوں نہیں پہنچ رہے، کہاں رکاوٹ ہے اسے دور کرنے کا سلسلہ کب شروع ہوگا۔اصل کسوٹی تو یہ ہے کہ عملی طور پر کب غریبوں تک ثمرات کی فراوانی ہوگی اور کیسے ہوگی؟
بہت معذرت کے ساتھ کہ چھوٹی منہ اور بڑی بات ہوگی ، ہمارے یہاں یہ اکثر دیکھا اور سنا جاتا ہے کہ مخالف پارٹی دوسری مخالف پارٹی کے لوگوں کے لئے الفاظوں کا چنائو ٹھیک طرح سے نہیں کرتیں، ایسے الفاظ چُنے جاتے ہیں جن کو پڑھ کر یا سن کر تہذیب سے دوری کا اندازہ ہوتا ہے۔ ادب و آداب کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو بھی بات ہو سکتی ہے۔ ادب و آداب اور تہذیب یہی تو ہمارا زیور ہے اگر ہم اسے بھی چھوڑ دیں گے تو کون ہمیں اچھے لفظوں میں یاد کرے گا۔ میرا اشارہ تو سب ہی سمجھ گئے ہونگے اس لئے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ہمارے سیاسی روٹیاں سینکنے کا مزاج بھی عجیب ہے۔ اقتدار میں بیٹھے ہوئے ارباب اپوزیشن والوں کی روٹیاں سینکتے نظر آتے ہیں اور اپوزیشن والے اقتدار والوں کی، بس یہی کچھ ہو رہا ہے یہاں اور غریب عوام اپنی کسمپرسی پر نوحہ کناہ ہیں۔
ان دنوں ہمارے ملک میں جو انقلابات رونما ہو رہے ہیں اور انسانی خدمت گاروں کے جو غول کے غول اسی معاشرے سے نکل کر ہمارے سامنے نمودار ہو رہے ہیں اور پانی اور بجلی جیسی نعمتوں سے چھٹکارا دلانے کی جو باتیں ہو رہی ہیں ، خدا کرے کہ یہ سب کچھ جلد سے جلد ہو جائے تا کہ غریب عوام بھی سُکھ کا سانس لے سکے۔آج جو ہم سب کا حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، خود کو کتابِ ہدایت کے علم بردار سمجھنے والے ہم لوگ، در بہ در کی بھیک سے اپنے دامن کو بھرنے کی بے مصرف کوششوں میں مصروف ہیں۔ کیا کبھی ہمیں بھی اس تڑپتی بلکتی انسانیت کا خیال ستاتا ہے؟ انسانوں کی ہدایت کی پیاس بجھانے کی کبھی ہمیں بھی توفیق نصیب ہوتی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں، ہاں مگر اتنا ضرور ہوتا ہے کہ امیروں کے پاس پیوریفائی پانی دستیاب ہے اور غریب عوام کے گھروں میں نلکے کا پانی بھی ناپید ہے۔
ہمارا رب زندگی کے ہر پہلو میں جیسے ہم میں ایک مثبت ترقی کا خواہشمند ہے، جس سماج یا معاشرے میں ہم رہتے بستے ہیں، اس کے اجتماعی اُمور میں ہماری شرکت کو اور اس کے مختلف معاملات میں اپنے مثبت رول کو ادا کرنے کو ہم نہ صرف یہ کہ ایک دینی اور وطنی ذمہ داری بلکہ ایک سعادت سمجھیں۔ ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی سے گریز کریں۔ اپنی اہلیت و قابلیت کے بموجب ہم اپنے آپ کو جس خدمت کے قابل سمجھیں ، ادا کریں اور بخوشی ادا کریں۔ یہ مناسب نہیں کہ کوئی ہم سے ہماری کسی صلاحیت و قابلیت کی بنا پر ہم سے کسی خدمت کی توقع کرے اور ہم اس سے صَرفِ نظر کریں، آج کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سب کو کسی بھی ذمہ داری سے پہلو تہی نہیں کرنا چاہیئے۔ ملک کے حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے ہر سیاسی لیڈران کو چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزبِ اختلاف میں’ اُن کے لیئے میں تو صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ”اے صاحبانِ ہمتِ یزداں، بڑھے چلو، بڑھے چلو، تاکہ اس ملک کا اور اس ملک کے غریبوں کا بھلا کر سکو”۔کیونکہ آپ کے لیئے عوام کی امیدوں پر کَھرا اُترنے کا سخت چیلنج ہے ، ویسے بھی کہا یہ جاتا ہے کہ انسان اگر کسی کام کو کرنے کا عزمِ مصمم کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔ یہ بات عام آدمی بھی جانتا اور سمجھتا ہے تو پھر آپ سب اس بات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ اختتامِ کلام بس اتنا کہ اللہ رب العزت آپ سب کو بھی اور اس ملک کے غیور عوام کو بھی سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت سے بہرمند فرمائے۔ اور اس ملک میں بسنے والوں کے دل و جذبات میں ایک دوسرے کے لیئے بھائی چارہ، دوستی و محبت کی چاشنی پھر سے شامل کر دے۔ آمین