پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے پارٹی الیکشن کروایا۔بہت ساری سیاسی جماعتوں نے کہا عمران خان پارٹی میں الیکشن نہیں کروا سکتا،کپتان کو بہت ساری مشکلات کا سامنا تھا بالاآخر کپتان نے پارٹی میں الیکشن کروا دیا۔ الیکشن میں بہت سارے غریب مزدور آگے آئے اور ساتھ ہی کرپٹ لوگ بھی الیکشن کے زریعے تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔لوگ بہت حیران ہوے کوئی سموسے فروخت کرنے والایا کوئی درزی وغیرہ تحریک انصاف کے عہددار بنے اس وقت تحریک انصاف نے یہ بات تسلیم کی کے کرپٹ لوگ بھی تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں۔ کپتان کا کہنا تھاکہ جنزل الیکشن میں عوام خود اپنا نمائندہ منتخب کرے گی اس بات پر بھی تحریک انصاف پورا نہیں اتر سکی اس وقت میں قارئین کو لاہور کی مجودہ صورت حال سے اگاہ کرنا چاھتا ہوں۔
لاہور میں انٹراپارٹی پارٹی الیکشن میں دو گرپوں میںکانٹے دار مقابلا تھا۔ نظریاتی گروپ کا مقابلا یونٹی گروپ کے ساتھ تھا نظریاتی گروپ کی صدارت میاں محمود ارشید اور یونٹی گروپ کی صدارت علیم خان کر رہے تھے میاں محمود ارشید تحریک انصاف کا پرانا اور نظریاتی کارکن ہے میاں محمود الررشید نے اپنے علاقے میں ٹیم بعد میں بنائی اور لاہور کی ٹیم پہلے بنائی اسی بنیاد پر ان کو لاہور ریجن کا صدر بنایا گیامیاں محمود ارشید نے قصور، ننکانہ صاحب، شاہکوٹ میں ٹیم بنا دی۔ اور کپتان خوش اور حیران دیکھائی دیے کہ اتنا بڑا چلنج بڑی محنت کے ساتھ میاں محمود الررشید نے آسان بنایا۔ انٹرا پارٹی الیکشن میں ان کے مخالف علیم خان تھے لاہور کے بہت سارے علاقوں میں دونو ں گروپوں کی اتفاقے راے سے عہدے تقسیم کیے گئے۔ لاہور کی pp 150 میں انٹرا پارٹی الیکشن یادگارثابت ہوئے پی پی 150 میں شیخ امتیاز میاں محمود الرشید کے دائیں بازو تھے۔
Sheikh Imtiaz
شیح امتیاز ایک بہت ہی پرانے اور نظریاتی ورکر ہیں اور تحریک انصاف کے جنرل سیکٹری لاہور کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں اور آجکل پولیٹکل سیکٹر ی پنجا ب اپوزیشن ہیں الیکشن میں شیخ امتیاز کے علاقے میں بہت ہی کانٹے دار مقابلہ ہوا اور یوسی 110 میں اسلہے کے بھی سرعام استعمال ہوا۔ یہاں تک کے یوسی 110 کے صدر میاں منظور کو حوالات کا منہ بھی دیکھنا پڑا۔ الیکشن کے کچھ ہی عرصہ کے بعد ہی دونوں گروپوں میں سیاسی صلح ہو گئی اور آخر کار ٹاون الیکشن کا وقت آگیااور ٹاون الیکشن میں بھی دنگے فساد میں قابو نہ رہ سکا۔اور ان لڑائی جھگڑوں میں بھی میاں محمود کے بھائی میاں مصظفے رشید کو بھی حوالات کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس میں حیران کن بات یہ تھی کہ ان تمام واقعات کی میڈیا پر پوری کوریج کی گئی لیکن عمران خان خاموش رہے اور علیم خان میا ں محمود الرشید کو شکست دے کر پی ٹی آئی لاہور کے صدر منتخب ہوگئے۔ علیم خان کے صدر بننے کے بعد پی ٹی آئی کے نظریاتی ورکر آہستہ آہستہ پارٹی سے ناراض ہوکر غائب ہونا شروع ہو گئے۔ کیونکہ نظریاتی ورکر کا کہنا تھا کہ انڑاپارٹی الیکشن میں علیم خان گروپ نے دھاندلی کرکے فتح حاصل کی ہے ۔ اور عمران خان نے اس صورت حال میں انڑا پارٹی الیکشن میں دھاندلی کا سن کر ایک کمیٹی قائم کر دی۔ اور وہ کمیٹی آج تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کرسکی۔ انڑا پارٹی الیکشن کے کچھ ہی عرصہ کے بعد ملک میں جنرل الیکشن کا وقت بھی آگیا۔
لیکن ملک کے جنرل الیکشن میں بھی علیم خان گروپ کو زیادہ ترجیح دی گئی اور یوں علیم خان گروپ کا لاہور میں ہولڈہو گیااس وقت بلدیاتی الیکشن میں بھی نظریاتی گروپ کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہو رہا ہے pp 150 میں شاہ پور کانجراں کے رہائشی راشد ریاض کو یوسی 94سبزہ زار کے چیرمین کا اعلان کردیاگیاہے اور یوں بلدیاتی الیکشن میں بھی نظریاتی ورکر سے زیادتی ہو رہی ہے نظریاتی ورکر چیر مین تحریک انصاف عمران خان سے اپیل کررہے ہیںکہ نظریاتی ورکر کو بھی موقع دینا چاہیے۔ پارٹی میں سب سے زیادہ قربانیاں ان نظریاتی ورکر نے دی ہیں جو آج خاموشی سے تحریک انصاف سے ناراض ہو کر گھر بیٹھے ہیں میر اعمران خان صاحب سے بھی ایک سوال ہے کہ وہ ملکی الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے متعلق عدالتوں سے فوری انصاف چاہتے ہیں لیکن انڑاپارٹی الیکشن میں ورکر کو انصاف دینا تو انکی زمہ داری تھی ۔وہ اپنی زمہ داری کیوں بھول گئے ہیں۔ انڑاپارٹی الیکشن میں ہونے والی دھاندی سے متعلق خان صاحب کی کمیٹی نے ناراض نظریاتی ورکر اور عوام کے سامنے اپنی رپورٹ کیوں نہیں پیش کی۔