کراچی (جیوڈیسک) دہشت گردوں کے لیے موت کی علامت سمجھے جانے والے ایس ایس پی چودھری اسلم کراچی میں عیسیٰ نگری کے قریب دھماکے میں شہید ہو گئے ہیں۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے سیاحتی شہر ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے چوہدری اسلم کا اصل نام محمد اسلم خان ہے۔ ان کا تعلق نہ تو پنجاب سے تھا اور نہ ہی وہ چوہدری ہیں لیکن لوگ انہیں چوہدری اسلم کے نام سے ہی جانتے تھے جس کی وجہ ان کا لباس اور چال ڈھال تھی۔
چوہدری اسلم کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے خلاف اپنی کارروائیوں کی وجہ وہ ان کے سب کے بڑے دشمن قرار دیے جاتے تھے۔ چوہدری اسلم نے 1984 میں سندھ ریزرو پولیس میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر ملازمت اختیار کی تھی۔ 1991 میں وہ انسپکٹر کے عہدے پر پہنچے اور پہلی مرتبہ کلا کوٹ تھانے کے ایس ایچ او کی ذمہ داریاں سنبھالی جبکہ 1994 میں گلبہار تھانے کے ایس ایچ او تعینات ہوئے۔
کے ای ایس سی کے ایم ڈی شاہد حسین کے قاتلوں کی گرفاتری کے بعد انہیں 1999 میں ڈی ایس پی کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ 2005 انڈر ورلڈ ڈان شعیب خان کی گرفتاری کے بعد انہیں ایس پی کے عہدے پر تعینات کر دئے گئے انکی شہرت لیاری ٹاسک فورس کا سربراہ مقرر ہونے کے بعد حاصل ہوئی۔
کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف انیس سو بانوے اور چھیانوے کے آپریشن میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ 2008 میں انہوں نے بحیثت سربراہ انویسٹی گیشن سیل سی آئی ڈی سول لائن کام شروع کیا۔ 2010 میں انہوں نے انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ کی حیثیت سے دوبارہ سی آئی ڈی جوائن کیا۔
لیاری کے جرائم پیشہ گروہ کے سرغنہ اور کالعدم لیاری امن کمیٹی کے سربراہ رحمان ڈکیت سمیت متعدد سرکردہ جرائم پیشہ افراد انہیں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ان پر ماورائے عدالت قتل کے بھی کئی الزامات لگائے گئے۔ البتہ ان الزامات کی تحقیقات کے بعد انہیں بےقصور قرار دیا گیا۔ چودھری اسلم کا شمار سندھ میں جرائم پیشہ افراد کے سروں کی سب سے قیمت وصول کرنے والے افسران میں شمار ہوتا تھا۔
چوہدری اسلم پر یہ چوتھا حملہ تھا اس سے قبل ان کی رہائش گاہ پر 19 ستمبر 2011 میں بھی حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک بچے سمیت 8 افراد جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ ان کا گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا اس حملے کی ذمہ داری بھی کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔
چوہدری اسلم کی اعلیٰ کارکردگی پر انہیں پاکستان پولیس کا تمغہ قائڈ اعظم پولیس میڈل اور تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔