پاکستان میں ٹیکس چوروں کو پاکستانی قوم کے سامنے لانے کیلئے حکومت نے ایک اہم اقدام کیا ہے وہ یہ ہے کہ گزشتہ روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 15 فروری تک ملک کی سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی ٹیکس ڈائریکٹری شائع کرنے کا حکم دیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس اقدام کی مخالفت کرتا رہا ہے۔
اس سے قبل وفاقی ٹیکس محتسب اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود ایف بی آر نے یہ معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ اب وزیر خزانہ نے وعدہ کیا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے اندر ملک میں اسمبلیوں اور سینیٹ کے 1174 اراکین کے ٹیکس کی تمام تفصیلات منظر عام پر لائی جائیں گی۔
انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ 20 فیصد کے لگ بھگ ان تمام اراکین اسمبلی کو نیشنل ٹیکس نمبر این ٹی این بھی جاری کیے جائیں گے جنہوں نے ابھی تک خود کو ٹیکس دہندہ کے طور پر رجسٹر نہیں کروایا۔ اس طرح یہ یقینی بنایا جائے گا کہ قوم کی نمائندگی کرنے والے لوگ ملک کے ٹیکس نظام کا حصہ بنیں اور اپنی آمدنیوں پر باقاعدہ ٹیکس ادا کریں۔
وزیر خزانہ کا وعدہ اور اقدام بظاہر اطمینان بخش اور درست سمت میں راست اقدام ہے۔ تاہم قبل از وقت اس کے اثرات اور افادیت کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ اسحاق ڈار ملک کی معیشت کی بہتری کے لئے بہت سے اقدامات کرنے اور اپنے احکامات پر عمل کروانے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ تاہم یہ بات تو محض وقت کے ساتھ ہی سامنے آ سکے گی کہ کیا وہ اپنے اس مقصد میں پوری طرح کامیاب ہو سکے ہیں یا کہ نہیں۔
اراکین اسمبلی کی ٹیکس ڈائریکٹری سامنے آنے کے بعد کم از کم یہ بات تو عیاں ہو سکے گی کہ عوام کی نمائندگی کرنے والے اور لوگوں کے ووٹ لے کر قوم کی تقدیر بدلنے کے دعویدار خود اپنے قومی فریضہ کی ادائیگی میں کس حد تک دیانت دار ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران جو رپورٹس سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق 60 فیصد سے زائد اراکین اسمبلی ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرواتے۔ گویا وہ ملک کے قانون کا احترام کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ حالانکہ ان کا بنیادی کام قانون سازی کا ہے۔ اب اگر قانون بنانے والے ہی اس کا احترام نہیں کریں گے تو باقی لوگوں سے اس بارے میں کیا امید کی جا سکتی ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ 20 فیصد کے لگ بھگ اراکین سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے پاس قومی ٹیکس نمبر ہی موجود نہیں ہے۔ گویا وہ قومی آمدنی کے اہم ترین ذریعہ کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی انتخابی مہم کے دوران کروڑوں روپے صرف کرتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے دوران 10 لاکھ روپے کی حد مقرر کی تھی تاہم کسی بھی امیدوار نے اس حد کا احترام نہیں کیا تھا۔ ووٹروں کو متاثر کرنے کے لئے چلائی جانے والی اشتہاری مہمات اور دیگر سہولتوں پر ہر امیدوار وسیع وسائل صرف کرتا ہے۔ لیکن جب ذمے داری سے قومی خزانے میں اپنی آمدنی پر ٹیکس دینے کی باری آتی ہے تو یہی نمائندے تہی دست اور قلاش دکھائی دیتے ہیں۔
Tax
ملک میں شاید ہی کوئی سیاست دان ایسا ہو گا جو پوری دیانت داری سے ٹیکس کی ادائیگی کا دعویٰ کر سکے گا۔ عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ متعلقہ افراد پرتعیش اور آسائش سے بھرپور زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن جب وہ اپنی آمدنی، وسائل اور املاک کی تفصیل بتاتے ہیں تو وہ نہایت قلیل ہوتی ہے۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وزیر خزانہ کے ایک فیصلہ سے ٹیکس چوروں کا قومی مزاج یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ تاہم محض اس ایک وجہ سے اس اقدام کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
البتہ اس بات کی ضرورت ہے کہ حکومت ٹیکس کی ادائیگی کے سلسلہ میں وسیع بنیاد پر مہم سازی کرے۔ اس مقصد کے لئے محض احکامات جاری کرنے یا قانون سازی کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ نہ ہی صرف سرکاری سطح پر مہم سازی پر کثیر وسائل صرف کر کے قومی خزانے میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے قوم کی مزاج سازی کی بھی ضرورت ہے۔ اس طرح یہ ذمہ داری محض حکومت پر ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔
سیاسی پارٹیوں کے کلچر میں اس رویہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے اراکین اور سرگرم لیڈروں سے تقاضہ کریں کہ وہ ٹیکس ادا کرنے کا آغاز کریں۔ یہ باور کرنا مشکل ہے کہ سیاسی طور سے سرگرم لوگ خواہ وہ اسمبلیوں کے ارکان ہوں یا محض مقامی اور قومی سطح پر پارٹی کے عہدیدار ہوں، خوشحال گھرانوں سے تعلق نہیں رکھتے۔ ملک کی اقتصادی صورت حال کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں سے یہ مطالبہ کیا جانا چاہئے کہ وہ اپنے اراکین کی آمدنیوں اور ان پر ادا کئے گئے ٹیکس کی تفصیلات عام کریں۔ بلکہ سیاسی گروہوں اور پارٹیوں میں اس حوالے سے صحت مندانہ مقابلے بازے کا آغاز قومی نقطہ نظر سے ایک مثبت اور صحت مند پیش رفت ہو سکتی ہے۔
ہر حکومت یہ افسوس ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح انتہائی کم ہے۔ مگر ہر حکومت اس حوالے سے کوئی اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس دوران سیاسی لیڈروں اور سرکاری ملازمین کی بدعنوانیوں اور پرتعیش طرزِ زندگی کی کہانیاں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ ملک کا ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ ملک کے مالی مسائل کو حل کرنے کے لئے قومی آمدنی میں اضافہ کرنا بے حد ضروری ہے لیکن سیاست دانوں، امراء اور صاحبان ثروت سمیت کوئی بھی بارش کا پہلا قطرہ بننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔اکثر لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے اور جو ٹیکس ادا کرتے ہیں وہ ان کی حقیقی آمدنی اور مالی حیثیت کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا۔ آئی ایم ایف سے قرضے مانگنے اور مالی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کرنسی نوٹ چھاپنے والے تمام با اختیار لوگوں کو انفرادی طور پر اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے۔سیاست دانوں کے علاوہ ملک کے جاگیردار، صنعت کار، حتیٰ کہ دینی ادارے چلانے والے لوگ بھی اس سلسلہ میں اپنا فرض ادا کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ٹیکس ادا کرنے کو قومی فریضہ کی حیثیت نہیں دی گئی ہے۔ کسی نہ کسی بہانے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کو روٹین کی کارروائی سمجھ لیا گیا ہے اور کوئی اسے تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ضرورت بات کی ہے کہ کیا پاکستان میں ٹیکس چور وں کی تمام تفصیلات منظرعام پر لائی جائیں گی یا وزیر خزانہ کی طرف سے محض احکامات جاری کرنے اور اراکین اسمبلی کی ٹیکس ڈائریکٹری شائع کرنا ہی کافی نہیں ہو گا۔ بلکہ انہیں ملک میں ٹیکس ادا کرنے کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے اچھی مثالیں بھی سامنے لانا ہوں گی۔ اس سے بہتر مثال کیا ہو سکتی ہے کہ حکومت کے سربراہ، کابینہ کے اراکین اور ان کے اہل خانہ دیانتداری سے اپنی آمدنی و املاک کی تفصیلات بتائیں اور ان پر ٹیکس ادا کریں۔ اگر اسحاق ڈار چند ہفتے میں نہیں بلکہ آئندہ چند برس میں یہ اہم مثال قائم کروا سکیں تو ملک میں ایک مثبت اور ضروری روایت کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس روایت کی بنیاد یہ اصول ہونا چاہئے کہ ٹیکس ادا کرنا مجبوری نہیں بلکہ قومی ذمہ داری ہے۔