پہلے اپنی صفیں درست کرنا ہونگی

Masjid

Masjid

وہ علاقے کا ایک مشہور ڈاکو تھا ساری عمر لوگوں کو لوٹتا رہا لیکن جب بڑھاپے کو پہنچا اور کسی کام کا نہ رہا تو مسجد کے سامنے بیٹھا رہتا تھا’ لیکن کبھی مسجد میں جانے کی توفیق نہ ہوئی کسی نے اس سے پوچھا کہ آپ نے اتنی وارداتیں کیں’ ان میں سے کوئی ایسی واردات ہے جو اٰپ کو عجیب لگی ہو؟ کہا ہاں ہے وہ اس طرح کہ ایک دفعہ بنیوں کی بارات آرہی تھی اس کو ہم نے روکا۔ مردوں کو الگ کیا اور عورتوں کو الگ کیا’ مردوں سے پیسے’ گھڑیاں وغیرہ لے لیے اور عورتوں کو کہا کہ تم اپنے سارے زیورات خود اتار کے ہمیں دے دو۔ کافی عورتوں نے حکم کے مطابق زیورات دے دئیے۔ ایک جوان عورت جس نے ایک چھوٹا سا بچہ بھی اٹھا رکھا تھا’ وہ مجھے کہنے لگی چاچا میرے ساتھ جلدی نہ کرنا میں اتار کے دے رہی ہوں۔ اس کے کانوں میں زیورات پھنس گئے تھے اتر نہیں رہے تھے تو بار بار مجھے ہاتھ جوڑ کر کہہ رہی تھی کہ چاچا! میرے ساتھ زبردستی نہ کرنا’ میں ابھی اتار کے دے دیتی ہوں لیکن اس عورت نے اتار نے میں دیر کی۔ میں نے اس کے بچے کو چھین کر ایک طرف پھینک دیا اس کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھا کر زمین پر دے مارا اور چاقو سے اس کے دونوں کانوں کو کاٹ کر جیب میں ڈال لیا۔ بس وہ چیختی رہی’ روتی رہی نہ مجھے رحم آیا’ نہ کسی اور نے اس کو چھڑایا۔

اس کے بعد مجھے پھر کبھی صحیح طور پر نہ نیند آئی نہ سکون آیا جب بھی آنکھ لگتی تو وہ عورت مجھے ہاتھ جوڑ کر کہتی تھی کہ چاچا! او چاچا! میرے ساتھ جلدی نہ کرنا۔ بس اس کی منت اور منظر دیکھتا تھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور ساری رات نیند نہ آتی۔

لوگ بتاتے ہیں کہ وہ ڈاکو بوڑھا ہو گیا ہر کام سے ناکارہ ہوگیا تو مسجد کے دروازے پر بیٹھا رہتا تھا لیکن اس کو دو رکعت نماز پڑھنے کی توفیق ہی نہیں مل رہی تھی۔ شان خداوندی ہے کہ کسی کے ساتھ طاقت اور تکبر کے زعم میں جتنا چاہے ظلم کر لو مگر اللہ تعالیٰ سب دیکھ رہا ہوتا ہے۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ ظالم کی کبھی پکڑ نہیں ہوتی۔ مگر خدا کی قسم ایسا بالکل نہیں اللہ تعالیٰ کسی ظالم کو چھوڑتا نہیں اُس کا حساب اسی دنیا میں چکتا کر کے اٹھاتا ہے اور بقول قرآن وہاں ظالموں کیلئے بہت درد ناک عذاب ہے۔

کتنے دکھ اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ یہ سب جانتے ہیں سمجھتے ہیں مگر ہم انجام سے بے پرواہ دنیائے بے لذت میں اس قدر مگن ہیں کہ جہاں موقع ملتا ہے کسی کا حق مار ڈالتے ہیں، طاقت مل جائے تو اُس کے نشہ میں چور ہو کر کمزور لوگوں کو چور چور کر دیتے ہیں۔ اختیار ات مل جائے تو اپنوں کو نوازنا حقداروں کو اُن کے حق سے محروم کر دینا عام سی بات بن گئی ہے۔ مگر روز محشر ان تمام دنیاوی چیزوں کا جواب ہر حال میں دینا پڑے گا۔

Allah

Allah

میری اکثر تحریروں پر میرے بعض قابل احترام قارئین مجھے ای میل بھی کرتے ہیں جو اُن کی محبت ہے جس کا ادھا اتارنا میرے بس کی بات نہیں۔ اللہ اُن کی محبت اور اُن کا مجھ پر اعتماد قائم و دائم رکھے اور اللہ مجھے حق بات لوگوں تک پہنچانے اور ثابت قدمی سے سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔ ایسے ہی میرے ایک قارئین شوکت حیات صاحب نے مجھے ایک نہایت پختہ اور قابل فکر ای میل کی جو کہ رومن اردو میں تھی میں یہاں تحریر کئے دیتا ہوں۔

برادرم امجد قریشی صاحب میں کافی عرصہ سے آپ کی تحاریر پڑھ رہا ہوں۔ آپ کی تحریروں میں ہمیشہ دین اور دنیاوی دونوں معلومات بہم ہوتی ہیں۔ آپ کے اندازِ قلم سے گمان ہوتا ہیہے جیسے آپ صرف معلومات ہی قارئین تک نہیں پہنچا رہے بلکہ لوگوں کو خوف خدا کی تنبیہ بھی کر رہے ہیں جیسے کچھ سوئے ہوئے لوگوں کا ضمیر جگانے کی ایک کوشش سی ہوتی ہے۔ جزاک اللہ آپ کی تحاریر نہایت عمدہ ہیں ان ہی تحریریوں کی بدولت مجھ سمیت شاید کتنے لوگوں کو خوف آخرت نے آگھیرا ہو اور زندگی کے بہت سے روز مرہ کے معاملات میں بہتری آئی ہوں۔ مگر یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے برادرم امجد کہ آپ بعض دفعہ بالواسطہ یا بلاواسطہ حکمرانوں سے بھی مخاطب ہوتے ہیں مگر اُن تک آپ کی آواز کیوں نہیں پہنچ پاتی؟۔ جس طرح آپ کو کئی بار دھمکی آمیز فون کالز آئی یا ای میل موصول ہوئی تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کی تحاریر ان لوگوں تک نہ پہنچتی ہوں۔ لیکن پھر بھی حالات جوں کے توں ایسا کیوں ہے؟۔

قارئین کرام محترم شوکت حیات صاحب کی تحریر کافی لمبی تھی مگر میں نے مختصر کچھ
چیدہ چیدہ باتیں اُٹھا کر آپ سب کے گوش گزار کردی ہیں۔ محترم شوکت حیات صاحب آپ کی بات سے میں بجا طور پر متفق ہوں ہوتا ایساہی ہے، مگر شاید ابھی تک اللہ کی طرف سے ان لوگوں کے نصیب میں ہدایت نہیں لکھی گئی۔ سو آپ جیسے قارئین کی ذمہ داری معاشرتی غلطیوں کی نشاندہی کرنااو ر اُس کے بعد ہم لکھنے والوں کی ذمہ داری کہ اُن نشاندہیوں پر سچ بات لکھنا اور جو لوگ گمراہی میں ہیں اُنہیں حق بات کی تلقین کرنا۔ پس بذریعہ تحریر آئینہ حقیقت دکھانا ہمارا کام ہے اور ہدایت دینا اللہ کا۔ سو اس امید پر کہ کیا پتہ اللہ پاک ان پتھر دلوں کو بھی پگھلا دے اور ہمارے حکمرانوں کے دل دور خلافت کے حکمرانوں جیسے ہو جائے۔

میرے خیال میں ہمارا کام جو ہے وہ ہمیں جاری رکھنا چاہیے اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے حکمرانوں کے دل نرم کرنے کی دعا بھی مانگتے رہنا چاہیے۔ لیکن ان سب باتوں کے بعد ہماری جو سب سے اہم ذمہ داری ہے وہ یہ کہ جیسا آپ نے خود اپنی ای میل میں ذکر کیا کہ میں روز مرہ کے معاملات میں خوف خدا کو سامنے رکھ کر حتی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ کسی کہ ساتھ زیادتی یا حق تلفی نہ ہوں، تو میر یپیار یبھائی اسی طرح ہم سب کو بھی اللہ کے احکامات کی بجا آوری لانا ہوگی اوریہ روش چھوڑنا ہوگی کہ وہ ایسا کرتا ہے تو میں کیوں پیچھے رہوں؟ بحیثیت مسلمان ہمیں اجتماعی حساب نہیں دینا (ہاں مگر حکمرانوں کو اجتماعیت کا حساب دینا ہوگا کیونکہ اُن کے کاندھوں پر دھری ذمہ داری ہے )ہم سب کو اللہ کے حضور اپنے قول و فعل کا حساب دینا ہے۔ اور میرا تو یہی ماننا ہے کہ اگر ہم لوگ سب سے پہلے اپنے روز مرہ کے امور اور نیتوں میں بہتری لے آئیں تو کجا مجال کہ ہمارے اجتماعی مسائل ختم نہ ہو؟ پس اس کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنی صفیں درست کرنا ہونگی۔ باقی تمام صفیں خودبخود درست ہوجائیں گی۔

Amjad Ashraf

Amjad Ashraf

تحریر: امجد قریشی