لاہور (جیوڈیسک) لاہور یہ غالباً 1987ء کی بات ہے جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات صفدر چودھری نے لاہور کے صحافیوں کو منصورہ میں اکٹھا کیا جہاں امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں طفیل محمد نے اعلان کیا کہ وہ اگلی مدت کے لیے امارت کے امیدوار نہیں ہوں گے اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کو اس سے آگاہ کر دیا ہے۔
ان سوالوں کے جواب میں کہ شوریٰ نے اس پر کیا فیصلہ کیا ہے۔ میاں طفیل محمد نے بات کو ٹال دیا۔ چند دنوں بعد ہی امیر جماعت کے انتخاب کا مرحلہ شروع ہو گیا۔ شوریٰ نے جن تین افراد کو امارت کے لیے موزوں جانا ان میں ایک نام قاضی حسین احمد کا بھی تھا۔ یہ تینوں نام شوریٰ نے ارکان کی آسانی کے لیے پیش کر دیئے تھے۔
تاہم ارکان ان کے علاوہ بھی کسی رکن جماعت کو ووٹ دینے میں آزاد تھے۔ مجھے اس زمانے میں جماعت اسلامی کے امور کو سمجھنے اور جاننے کا بلاوجہ کا زعم تھا چنانچہ میں نے اپنے اخبار کے سیاسی ایڈیشن میں ایک مضمون لکھ دیا کہ روایت کے مطابق ارکان جماعت امارت کی ذمہ داری کسی نائب امیر کو منتقل کرتے ہیں۔
اس لیے چودھری رحمت الٰہی یا پروفیسر خورشید احمد میں سے کوئی امیر جماعت اسلامی منتخب ہو گا، چونکہ مولانا مودودی کے ساتھ طویل عرصہ تک سیکرٹری جنرل رہنے والے چودھری رحمت الٰہی بھی مولانا مودودی کے بعد امیر جماعت منتخب نہیں ہو سکے تھے۔