طلوعِ آفتاب مطلعِ نبوت و رسالت

Rabi-ul-Awwal

Rabi-ul-Awwal

ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ دو شنبہ کا دن تھا۔ اور صبح صادق کی ضیاء بار سہانی گھڑی تھی۔ رات کی بھیانک سیاہی چھٹ رہی تھی اور دن کا اجالا پھیلنے لگا تھا۔ جب مکہ کے سردار حضرت عبدالمطلب کی جواں سال بیوہ بہو کے حسرت و یاس کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے سادہ سے مکان میں ازلی سعادتوں اور ابدی مسرتوں کا نور چمکا۔

ایسا مولود مسعود تولد ہوا جس کے من موہنے مکھڑے نے صرف اپنی غمزدہ ماں کو ہی سچی خوشیوں سے مسرور نہیں کیا بلکہ ہر درد کے مارے کے لبوں پر مسکراہٹیں کھیلنے لگیں۔ اس نورانی پیکر کے جلوہ فرمانے سے صرف حضر عبداللہ کا کُلبۂ احزاں جگمگانے نہیں لگا بلکہ جہاں کہیں بھی مایوسیوں اور حرماں نصیبوں نے اپنے پنجے گاڑھ رکھے تھے وہاں امید کی کرنیں روشنی پھیلانے لگیں اور ٹوٹے دلوں کو بہلانے لگیں۔ صرف جزیرہ عرب کا بخت خفتہ ہی بیدار نہیں ہوا بلکہ انسانیت جو صدیوں سے ہو و ہوس کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور ظلم و ستم کے آہنی شکنجوں میں کسی ہوئی کراہ رہی تھی۔ اس کو ہر قسم کی ذہنی ، معاشی اور سیاسی غلامی سے رہائی کا مژدہ جان فزا ملا ۔ فقط مکہ و حجاز کے خدا فراموش باشندے ، خدا شناس اور خود شناس نہیں بنے بلکہ عرب و عجم کے ہر مکین کیلئے میخانۂ معرفت کے دروازے کھول دیئے گئے اور سارے نوع انسانی کو دعوت دی گئی کہ جس کا جی چاہے آگے آئے اور اس مئے طہور سے جتنے جام نوش جاں کرنے کی ہمت رکھتا ہے اٹھائے اور اپنے لبوں سے لگا لے۔ طیور خوش نواز مزمہ سنج ہوئے کہ خزاں کی چیرہ دستیوں سے تباہ حال گلشن انسانیت کو سرمدی بہاروں سے آشنا کرنے والا آگیا۔ سر بگریباں غنچے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ انہیں جگانے والا آیا اور جگا کر انہیں شگفتہ پھول بنانے والا آیا ، افسردہ کلیاں مسکرانے لگیں تھیں کہ ان کے دامن کو رنگ و نکہت سے فردوس بداماں کرنے والا آیا ، علم و آگاہی کے سمندروں میں حکمت کے جو آبدار موتی آغوشِ سے صدف میں صدیوں سے بے مصرف پڑے تھے ان میں شوقِ نمود انگڑایاں لینے لگا۔

ولادت سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ہم حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں آپ کی شادی خانہ آبادی کا ذکر خیر کر چکے ہیں۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا جب اپنے بزرگوار سسر حضرت عبدالمطلب کے کاشانہ اقدس میں رونق افروز ہوئیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی جبین سعادت سے منتقل ہو کر آپ کے شکم طاہر میں قرار پذیر ہوا۔ لیکن یہاں بھی اس نور پاک کی شان نرالی تھی۔

حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
ترجمہ: مجھے پتا ہی نہ چلا کہ میں حاملہ ہو گئی ہوں۔ نہ مجھے کوئی بوجھ محسوس ہوا جو ان حالات میں دوسری عورتوں کو محسوس ہوتا ہے۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہوا کہ میرے ایام ماہواری بند ہو گئے ہیں ایک روز میں خواب اور بیداری کے بین بین تھی کہ کوئی آنے والا میرے پاس آیا اور اس نے پوچھا۔ آمنہ! تجھے علم ہوا ہے کہ تو حاملہ ہے۔ میں نے جواب دیا نہیں۔ پھر اس نے بتایا تم حاملہ ہو اور تیرے بطن میں اس امت کا سردار اور نبی تشریف فرما ہوا ہے۔ اور جس دن یہ واقع پیش آیا وہ سوموار کا دن تھا۔
فرماتیں ہیں کہ حمل کے ایام بڑے آرام سے گزرے جب وقت پورا ہو گیا تو وہی فرشتہ جس نے مجھے پہلے خوش خبری دی تھی وہ آیا اس نے آ کر مجھے کہا۔
قُوْلِیْ اُعِیْذُہ’ بِالْوَاحِدِ ۔ مِنْ شَرِّکُلِّ حَاسِدٍ
یہ کہو کہ میں اللہ وا حدسے اس کیلئے ہر حاسد کے شر سے پناہ مانگتی ہوں

حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت سوموار کے روز ١٢ ربیع الاول شریف کو ہوئی۔ بعض نے کہا ہے کہ ربیع الاول کی ٢ تاریخ تھی اور بعض نے کہا ہے کہ ربیع الاول کی ١٠ تاریخ تھی۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جس رات کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی۔ میں نے ایک نور دیکھا جس کی روشنی سے شام کے محلات جگما اٹھے۔ یہاں تک کہ میں ان کو دیکھ رہی تھی۔ دوسری روایت میں ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی ولادت با سعادت
ہوئی حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا سے ایک نور نکلا جس نے سارے گھر کو بقعہ نور بنا دیا۔ ہر طرف نور ہی نور نظر آتا تھا۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف کی والدہ الشفا ، جس کی قسمت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دایہ بننے کی سعادت رقم تھی وہ کہتی ہیں کہ جب سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں پر سہارا اور میں نے ایک آواز سنی کو کہہ رہی تھی۔
رَحِمَکِ رَبُّکِ تیرا رب تجھ پر رحم فرمائے قالت الشّفا شفا کہتی ہے۔
فَاَضَا ئَ لِیْ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ حَتّٰی نَظَرْتُ اِلٰی بَعْضِ قُصُوْرِ الشَّا مِ
” اس نور مجسم کے ظاہر ہونے سے میرے سامنے مشرق و مغرب میں روشنی پھیل گئی یہاں تک کہ میں نے شام کے بعض محلات کو دیکھا۔ ”
حضرت شفا کہتی ہیں جب میں لیٹ گئی تو اندھیرا چھا گیا اور مجھ پر رعب اور کپکپی طاری ہو گئی اور میرے دائیں جانب سے روشنی ہوئی کہ میں نے کسی کہنے والے کو سنا وہ پوچھ رہا تھا۔
اَیْنَ ذَہَبْتَ بِہ تم اس بچے کو لے کر کہاں گئے تھے۔
جواب ملا۔ میں انہیں لے کر مغرب کی طرف گیا تھا۔
پھر وہی اندھیرا وہی رعب اور وہی لرزا مجھ لوٹ آیا پھر میری بائیں جانب سے روشنی ہوئی۔
میں نے سنا کوئی پوچھ رہا تھا تم اسے کدھر لے گئے تھے دوسرے نے جواب دیا۔
میں انہیں مشرق کی طرف لے گیا تھا۔ اب دوبارہ نہیں لے جائوں گا۔ یہ بات میرے دل میں کھٹکتی رہی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول کو مبعوث فرمایا اور میں ان کوگوں میں سے تھی جو سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے۔

Muhammad (PBUH)

Muhammad (PBUH)

حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ زمین
پر گھٹنوں کے بل بیٹھے تھے۔ اور آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ آپ کی ناف پہلے ہی کٹی ہوئی تھی۔ وھب بن زمعہ کی پھوپھی کہتی ہیں کہ جب حضرت آمنہ کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو آپ نے حضرت عبدالمطلب کو اطلاع دینے کیلئے آدمی بھیجا جب وہ خوشخبری سنانے والا پہنچا اس وقت آپ حطیم میں اپنے بیٹوں اور اپنے قوم کے مردوں کے درمیان تشریف فرما تھے آپ کو اطلاع دی گئی کہ حضر ت آمنہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے تو آپ کی خوشی و مسرت کی حد نہ رہی۔ آپ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے ولادت کے وقت جو انوار و تجلیات دیکھی تھیں اور جو آوازیں سنی تھیں ان کے بارے میں عرض کی۔

عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر کعبہ شریف میں گئے وہاں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعائیں کیں اور جو انعام اس نے فرمایا تھا اس کا شکریہ ادا کیا۔ابنِ واقب کہتے ہیں کہ اس وقت حضرت عبدالمطلب کی زبان پر فی البدیہہ یہ اشعار جاری ہو گئے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ا لَّذِیْ اَعْطَانِیْ

ہٰذَاالْغُلَمَ الطَّیِّبَ الْاَرْدَانِ
” سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے جس نے مجھے پاک آستینوں والا یہ بچا عطا فرمایا۔ ”
قَدْ سَا دَفِی الْمَہْدِ عَلَی الْغِلْمَانِ

اُعِیْذُہ’ بَالْبَیْتِ ذِی الْاَرْکَانِ
” یہ اپنے پنگھوڑے میں سارے بچوں کا سردار ہے میں اسے بیت اللہ شریف کی پناہ میں دیتا ہوں۔”
حَتّٰی اَرَاہُ بَالِغَ الْبُنْیَانِ

اُعِیْذُہ’ مِنْ شَرِّ ذِیْ شَنْا نِٰ

مِنْ حَاسِدٍ مُضْطِرِبِ الْعَیَانِ

” یہاں تک کہ میں اس کو طاقتور اور توانا دیکھوں میں اس کو ہر دشمن اور ہر حاسد ۔ آنکھوں کے گھمانے والے کے شر سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔”
حضرت عباس فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب پیدا ہوئے تو
آپ مختون تھے اور ناف کٹی ہوئی تھی۔ یہ معلوم کر کے آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کو بڑا تعجب ہوا اور فرمایا لَیَکُونَنَّ لِاِبْنِیْ شَانُ کہ میرے اس بچے کی بہت بڑی شان ہو گی۔

شاعر دربار رسالت حضرت حسان بن ثابت کو اللہ تعالیٰ نے طویل عمر عطا فرمائی ساٹھ سال آپ نے جہالت میں گزارے اور ساٹھ سال بحیثیت ایک سچے مومن کے آپ کو زندگی گزارنے کی مہلت دی گئی۔ آپ فرماتے ہیں:۔

میر عمر ابھی سات آٹھ سال تھی مجھ میں اتنی سمجھ بوجھ تھی کہ جو میں دیکھتا اور سنتا تھا وہ مجھے یاد رہتا تھا۔ ایک دن علی الصبح ایک اونچے ٹیلے ہر یثرب میں ایک یہودی کو میں نے چیختے چلاتے دیکھا وہ یہ اعلان کر رہا تھا۔

یَامَعْشَرَیَہُوْدَفَاجْتَمِعُوْااِلَیْہِ
اے گروہ یہود سب میرے پاس اکٹھے ہو جائو۔ وہ اس کا اعلان سن کر بھاگتے ہوئے اس کے پاس جمع ہو گئے اور اس سے پوچھا بتائو کیا بات ہے اس نے کہا ۔
ترجمہ: ” اس نے کہا کہ وہ ستارہ طلوع ہو گیا ہے جس نے اس شب کو طلوع ہونا تھا جو احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی رات ہے۔ ”
کعب احبار کہتے ہیں کہ میں نے تورا ت میں دیکھا اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو نبی کریم ۖ کی ولادت کے وقت سے آگاہ کیا تھا۔ اور موسیٰ نے اپنی قوم کو وہ نشانی بتا دی تھی آپ نے فرمایا تھا وہ ستارہ جو تمہارے نزدیک فلاں نام سے مشہور ہے جب اپنی جگہ سے حرکت کرے گا تو وہ وقت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ہو گا اور یہ بات بنی اسرائیل میں ایسی عام تھی کہ علماء ایک دوسرے کو بتاتے تھے اور اپنی آنے والی نسل کو اس سے خبردار کرتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ ان لوگوں سے روایت کرتی ہیں
جو ولادت با سعادت کے وقت موجود تھے آپ نے کہا۔

مکہ میں ایک یہودی سکونت پذیر تھا جب وہ رات آئی جس میں اللہ کے پیارے رسول کی ولادت با سعادت ہوئی تو اس یہودی نے قریش کی ایک محفل میں جا کر پوچھا کہ اے قریش! کیا آج رات تمہارے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوا ہے قوم نے اپنی بے خبری کا اظہار کیا اس یہودی نے کہا کہ میری بات خوب یاد کر لو اس رات اس آخری امت کا نبی پیدا ہوا ہے اور اے قریشیو! وہ تمہارے قبیلہ میں سے ہو گا اور اس کے کندھے پر ایک جگہ بالوں کا گچھا ہو گا لوگ یہ بات سن کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ہر شخص نے اپنے گھر والوں سے پوچھا انہیں بتایا گیا کہ آج رات عبداللہ بن عبدالمطلب کے ہاں ایک فرزند پیدا ہوا ہے جس کو محمد کے با برکت نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ لوگوں نے یہودی کو آکر بتایا اس نے کہا مجھے لے چلو اور مجھے وہ مولود دکھائو چنانچہ وہ اسے لے کر حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے انہوں نے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو کہا کہ ہمیں اپنا فرزند دکھائو۔ وہ بچے کو اٹھا کر ان کے پاس لے آئیں انہوں نے اس بچے کی پشت سے کپڑا ہٹایا وہ یہودی بالوں کے اس گچھے کو دیکھ کر غش کھا کر گر پڑا جب اسے ہوش آیا تو لوگوں نے پوچھا تمہیں کیا ہو گیا تھا اس نے بصدحسرت کہا کہ بنی اسرائیل سے نبوت ختم ہو گئی۔ اے قبیلہ قریش! تم خوشیاں منائو اس مولود مسعود کی برکت سے مشرق و مغرب میں تمہاری عظمت کا ڈنکا بجے گا۔ (١)

اس قسم کی بے شمار روایات ہیں جن میں علماء اہل کتاب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کی خوشخبریاں دی ہیں۔
حضرت عبدالمطلب فرماتے ہیں۔
میں اس رات کعبہ میں تھا۔ میں نے بتوں کو دیکھا کہ سب بت اپنی اپنی جگہ سے سربسجود سر کے بل گر پڑے ہیں اور دیوار کعبہ سے یہ آواز آرہی ہے۔
وُلِدَالْمُصْطَفٰی وَالْمُخْتَارُالَّذِیْ تَہْلِکُ بِیَدِہِ الْکُفَّارُ وَیَطْہُرُ مِنْ عِبَادَةِ الْاَصْنَامِ وَیَاْمُرُ بِعِبَادَةِ الْمَلِکِ الْعَلَّامِ

”مصطفی اور مختار پیدا ہوا۔ اس کے ہاتھ سے کفار ہلاک ہونگے۔ اور کعبہ بتوں کی عبادت سے پاک ہو گا اور اللہ کی عبادت کا حکم دے گا جو حقیقی بادشاہ اور سب کچھ جاننے والا ہے”۔

Qari Mohammad Ashfaq

Qari Mohammad Ashfaq

تحریر: قاری محمد اشفاق سعیدی گولڑوی