میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Rabi-ul-Awwal

Rabi-ul-Awwal

١٢ ربیع الاول کو وہ بوریا نشین بادشاہ اس ہنگامہ خیز دنیا میں تشریف لایا جس نے فقیری میں بادشاہی کی، جس نے محبت کی تلوار سے ملکوں کو ہی نہیں بلکہ دلوں کو بھی فتح کر لیا، اس کے ماننے وا لے رشتہ اخوت میں اس طرح بندھے جس طرح دو ماں جائے بھائی، یہ چیز بھی اپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقد سں ہی کے ساتھ مخصوص ہے کہ صرف اپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی زندگی ہے جوپوری کی پوری با تمام و کمال جزئیات اعمال و کردار کے سا تھ محفوظ ہے اور ہر حال کے انسان کے لیے آ ئینہ حق رہ نما لیے، جس میں اس کے خدوخال نظر آئیں تا کہ کسی شعبہ زندگی میں کسی دوسرے رہنما کی ضرورت نہ پڑے آپ کے بچپن کو ہی دیکھ لیں ایک ایسے دور میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کے سر سے باپ، ماں اور دادا کا سایہ عافیت کمسنی میں ہی اٹھ جاتا ہے۔ ایک طرف عرب جہالت کے دلدل میں پڑا ہواہے اور دوسری طرف جب اس بچے کا کوئی سرپرست نہ رہا تو تعلیم و تربیت کا کیا ذکر، دائی حلیمہ کے پاس تھے تو ان کے بچوں کو بکریاں چراتے دیکھ کر ان کے کا م میں ان کا ساتھ دیا سن شعور سے پہلے ہی چچا ابو طالب کی غربت دیکھ کر بدوں لڑکوں کے ساتھ بکریاں چرانے لگتے ہیں۔

معاشرہ ہر طرح سے بگڑا ہوا ہے، بے حیای بد کلامی جزو زندگی بن چکی ہے، اس ماحول میں رہ کر بھی نہ کبھی جھوٹ بولا، نہ بد کلامی کی، نہ کبھی چوری کی بلکہ سرتاپا مجسم و شرم وحیا نظر آتے ہیں۔ دیانتدار ایسے کہ دشمن بھی”امین” کے لقب سے پکارتے ہیں ،جو ان ہو تے ہیں مکہ کے تاجروں کے ہاں مزدوری پر اور کبھی کبھی نفع میں حصہ پر کام کرنا شر وع کر تے ہیں اس طر ح ٢٥ سال کی عمر تک کام کیا اس مزدوری میں کچھ حصہ ملتا تھا، جو یقینا بہت کم تھا اپنی گذورو اوقات کر تے ہیں اسی پر شا کر نظر آتے ہیں مکہ کی ایک مالدار خاتون ان کی ایمانداری سے متاثر ہو کر نکاح کا پیغام بھیجتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ نہیں اس لیے ابو طالب نے بھی جو خطبہ حضرت خدیجہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح کے موقع پر دیا اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق اور شرافت کے ذکر کے ساتھ اس بات کا ذکر بھی تھا کہ دولت دنیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پا س نہیں، آپ کے کنوارے رہنے کی ایک دلیل یہ بھی تھی آپکے پاس مال و زر نہ تھا، ورنہ عرب میں نوجواں ١٦ سے ١٧ سال میں شادیاں کر لیتے تھے۔

شادی کے بعد دس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بازار میں تجارتی لین دین کرتے ہو ے ملتے ہیں بی بی خدیجہ اور قریش کے دوسرے تاجروں کا مال لے کے سفر تجارت کر تے ہیں اور اپنی اجرت حاصل کرتے، چالیس سال کی عمر میں پہلی وحی نازل ہوتی ہے قریش کی طرف سے ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں مگر پائے ثبات میں لغرش نہیں آتی اپنے چچا ابو طالب سے فرماتے ہیں ”اگر یہ لو گ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور ایک پر چاند رکھ دیں تو بھی میں حق کے اعلان سے باز نہ آوں گا ” سالہا سال کے ظلم وستم اور تکلیفوں کے بعد بھی کبھی ایک لمحہ کو مایوسی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں جگہ نہ بنا سکی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ”مدینہ کے زمانہ قیام کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی دو وقت سیر ہو کر کھانا نہ کھایا۔

Truth

Truth

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو وعدہ کرتے اسے پورا کر تے، سچائی اس درجہ تھی کہ دشمن بھی جھوٹا نہ کہ سکے، سادگی طبیعت بے انتہا تھی، کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے رہنے سہنے میں ذرا تکلف نہ تھا۔ گفتگو فرماتے تو ٹھہر ٹھہر کر کبھی بے ضرورت بات نہ کرتے ہنسی آتی تو مسکرا دیتے۔ نماز میں سراپا نیا زبن جاتے، نرم دل اتنے کہ کسی کی تکلیف دیکھی نہ جاتی۔ غرض کہ جس پہلو سے دیکھیے ایک مکمل ذات کا صیح پیکر۔

اگر اج کی زندگی میں ہدایت لینی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر شعبہ زندگی میں نمونہ بن کر ہماری ہدایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بچہ اور نوجوان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابتدائی زندگی سے سبق لے، مزدور دیکھنا چاہیں تو خندق اور مسجد نبوی کے مزدوروں کے سردار کو ضرور دیکھیں، زاہد و عابد درس لینا چاہیں تو غارحرا کے متعکف کو دیکھ لیں، خطیب دیکھنا چاہیں خطبہ حجتہ الوداع دیکھ لیں ،اگر کسی فوجی افسر کو طریقہ جنگ کے اصول سیکھنا ہو میدان بدر اور خندق کے اعلی افسر کو دیکھ لے، امرا لیڈر اور سیاست داں اپنا نا چاہیں تو مدینہ کی مثالی زندگی کو اپنے لیے مثال بنالیں، غریب ومساکین مدینہ کے فاقہ کرنے والے کائنات کے مالک کی ہمت وعزم سے حالات کا مقابلہ سیکھیں۔ غرض زندگی کے ہر شعبے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدایت کا سامان پیدا کر دیا جو ہمارے ہر دور کے ہر عمر کے اور ہر طبقے کے لیے مثال کا درجہ رکھتی ہے۔

ان کی تعریف اور خوبیوں میں یہ ایک چھوٹا سا مضمون اسی طرح ہے گو یا چھوٹا منہ اور بہت، بہت بڑی بات اور میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے ہم تمام دنیا کے انسا ن جہا لتوں کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہو تے۔ ہماری دنیا اور آخرت دونوں برباد تھی کہ بحثیت عورت ہمارے لیے عورتوں کے حقوق کی صیح نگہبانی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معمولی غلاموں کی زندگی میں خود مختاری کی نئی روح پھونک دی میری بات سے اپ سب ہی اتفاق کریں گے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تمام اصول وضوابط آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے ہیں خطبہ حجتہ الوداع کی تعلیمات کا مظہر ہیں یہ چیز بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی کے ساتھ مخصوص ہے کہ انسانی تاریخ میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی زندگی ہے جوپوری کی پوری با تمام وکمال جزئیات حافظہ میں ُذہن و فکر ُمیں صفحات کاغذ پر، بلکہ اعمال وکردار تک میں محفوظ ہے قدرت کے جانب سے اس تحفظ میں یہ راز بھی مخفی ہے۔

Muhammad (PBUH)

Muhammad (PBUH)

کہ ہر عمر اور ہر حال کے انسان کے لیے آئینہ رہ نما ہے آج ہم تمام مسلمان ان ہدایات کو جو آج سے تقریبا پندرہ سو سال پہلے دی گئی تھیں پیش نظر رکھ کر اپنے حالات کا جائزہ لینا چاہیے جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام صفات پر نظر ڈ لتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے معاشرے کے فرد تھے لیکن! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے دنیا کی سب سے خوبصورت اور عزیز ہستی دکھائی دیتے ہیں اور میں دل کی گہرائی سے کہتی ہوں کہ ایسے ہیں میر ے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

تحریر: عینی نیا زی