جشن عید میلادالنبی

Quran Majeed

Quran Majeed

مطالعہ قرآن و اسلام اور تاریخ ومذہب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین و زماں ‘ کون و مکاں ‘ جبرائیل و میکائیل ‘ بہشت و برزخ اور ملائکہ سے قبل بھی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود تھا اور رب کی تمام تخلیقات کی بنیاد و اساس ذات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحُب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رب نے اپنے حبیب کا ذکر نہ صرف تمام الہامی مذاہب کی روحانی کتب میں کیا بلکہ کتاب الحکمت قرآن کریم فرقان مجید کو بھی ذکر مصطفی سے مزین رکھا ۔

” لااِلٰہ َ اِلااللہ ”کے ساتھ”محمد الرَّسول اللہ” لگاکر اللہ و محمد کے ذکر کو یکجاکیا اور زبان سے اقرار کرنے ودِل سے اس کی تصدیق کو ایمان سے رجوع قرار دیا اور پھراذان و نماز کی کاملیت کو ذکر مصطفی سے مشروط کرکے اپنے محبوب سے محبت کا جو اظہار کیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محبت مصطفی ۖسے خالی دل کبھی حُب الٰہی کی جانب راغب نہیں ہوسکتا۔

عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی در اصل عشق الٰہی کی جانب رغبت اور صراط مستقیم کی جانب سفر کی بنیاد و اسا س ہے اور جب تک راہ کی شناخت نہ ہو’ اس پر چلنے کیلئے درست رہنمائی نہ ہو منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی لئے رب نے اہل ایمان کو قرآن کریم کی شکل میں بہشتی منزل تک پہنچے کی جو راہ دکھائی ہے اس کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت وسنت رہنمائی کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ منزل تک پہنچنے کی ضمانت بھی ہے۔

صرف اللہ پر ایمان لانے سے ہی رب کی رضا کا حصول ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے محبوب سے محبت اور اللہ کی ہدایت و عبادت کیلئے محمد کی سیرت سے رہنمائی کی بھی ضرورت ہے۔ اسلئے جس طرح مسلمان پر نماز ‘زکوٰة اور روزہ فرض ہے اسی طرح ہر مسلمان کو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ ان فرائض کی دائیگی کیلئے مستند رہنمائی کا حصول ممکن ہو اور ہم ہر اُس غلطی و لغزش سے محفوظ رہ سکیں جو ہمیں رب کی رحمت سے دور کرکے قہر کی دعوت دینے کا باعث بن جائے۔

رب ذوالجلال نے جہاں عبادات وفرائض کے ذریعے انسان کو رب کی رضا ونجات تک پہنچنے کی راہ دکھائی وہیں ذکر مصطفی یعنی درود پاک کے ذریعے رب تک براہ راست رسائی اور رب کی رحمتوں کو مخلوق کی جانب رجوع کی دعوت کا وسیلہ بھی بنادیا اور اہل ایمان کو بتادیا کہ روزہ ‘نماز’ زکوٰة ‘ حج اور دیگر عبادات انسان پر فرض اور رب کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہیں مگر جب کوئی اہل ایمان صداقت کے ساتھ درود پاک کا ورد و ذکر کرتا ہے تو ملائکہ اس پر درود پڑھتے ہیں یعنی سلامتی کی دعا دیتے ہیں اور ملائکہ کا قیاس و شمار انسان کے بس سے باہر اور بعید از قیاس ہے۔

Allah

Allah

رب رحمن کو اپنے حبیب سے اس قدر محبت ہے کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے ذکر کو بلند کرنے کا وعدہ فرمایااور پھر اس ذکر کو بلند کرنے کیلئے کائنات تشکیل دی ‘ انسان’ حیوان’ چرند’ پرند’ درند’ حشرات’ آبی مخلوقات’ بادی’ آبی’ خاکی اور آتشی مخلوقات پیدا فرمائیں۔ آدم علیہ السلام کو خلق کیا حوا کا ساتھ عطا کیا گناہ کا پھل بنایا جو آدم کو جنت سے دنیا میں منتقل کرنے کا سبب بنااور آدم کا احساس تنہائی محبت کی ماہیئت کے ادراک کا سبب بنا جس کے بعد حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا فرماکر رب نے آدم کو ان کی عبادت وریاضت کا صلہ عطا کیا تو آدم و حو ا کی محبت و ملن افزائش انسانی کا باعث بنی اور آدم کے بعد دنیا میں ان ہی کی اولادوں میں انسان و انبیاء دونوں تشریف لاتے رہے مگر جب اللہ رب العزت نے انسان کو خسارے میں پایا تو خالق مخلوق کا اپنی ” تخلیق”یعنی مخلوق سے محبت کا جذبہ عود کرآیا اور اس نے اپنے محبوب کی جدائی و تنہائی کے کرب سے گزرکر انسان پر اپنی رحمت کی اور اپنے حبیب کو دنیا میں اسلئے مبعوث فرمایا کہ وہ حضرت انسان کو رب کی مرضی و رضا کی جانب ملتفت فرماکر انہیں رب کی رحمت اور جنت کا حقدار بنائیں۔

12ربیع الاوّل وہ تاریخ ساز دن ہے جب رب نے انسان کی فلاح کیلئے اپنے حبیب کو خود سے جدا کیا اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا میں مبعوث کیا اس لئے رہتی دنیا تک یہ دن سب سے بڑا ‘ سب سے با برکت اور سب سے زیادہ عظمت و الا دن کہلا یا جاتا رہے گا کیونکہ اس دن وہ ہستی اس جہان فانی میں رب کی جانب سے مبعوث کی گئی جس کی محبت ‘ اظہار محبت اور ذکر کو بڑھانے کیلئے یہ جہاں تخلیق کیا گیا۔

خالق کو اپنے محبوب کے ذکر کو آسمانوں سے باہر پھیلانا اور تمام جہانوں کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآالہ وسلم کے ذکر سے معمور کرنا تھاکیونکہ سبب تخلیق کائنات بھی یہی تھا ۔یہی وجہ ہے کہ رب نے اپنے ذکرکے ساتھ محمد کے ذکر کو لازم کردیا اور اذان و نماز کو بھی اس ذکر سے مشروط کرکے اس ذکر کو ہر لمحہ ‘ ہر ساعت کیلئے لازم بنادیا کیونکہ جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے ہر خطے میںہر لمحہ وقت مختلف ہوتا ہے اور اذان و نماز سورج کی چال و رفتار کے حساب سے ہوتی ہیں جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف اوقات میں اذان و نماز ہوتی رہتی ہے اور یہ کہا جائے کہ وقت کے ہر لمحہ میں دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں اذان و نماز ہمہ وقت ہوتی رہتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے ہر لمحہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ساتھ اس کے رسول کا ذکر ہوتا ہے اور رسالت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی دی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کائنات میں موجود ہر جاندار و بے جان شے ہر لمحہ ذکر الٰہی میں مصروف ہے انسان کے علاوہ چرند ‘ پرند’ درند ‘ حشرات ‘ جنات ‘ آبی مخلوقات سے لیکر حجر ‘ شجر ‘ بحرو بر ‘ آب و باد’ خاک و تاب تک ہر شے ہمہ وقت ذکر ربوبیت میں مشغول و مصروف ہے اور رب نے اپنے ذکر ” لااِلہٰ اِلااللہ ”کی تکمیل کو ” محمد رسول اللہ ” سے مشروط کرکے اس ذکر کواس قدر بلند کردیا ہے کہ ہر لمحہ ہر مخلوق ذکر الٰہی کے ساتھ ذکرِ مصطفی میں بھی مشغول ہے۔

اسلئے 12 ربیع الاوّل اہل ایمان کیلئے رب کی رحمت کے نزول کا وہ دن ہے جس دن رب نے انسان کوخسارے سے نکال کر فلاح کی جانب لانے کیلئے اپنے محبوب کو دنیا میں مبعوث فرماکر انسان سے اپنی محبت اور اس کی فلاح اور اس پر اپنی رحمت کے نزول کیلئے بیتاب و بیقرار ہونے کا اظہارکیا ۔ اسلئے 12ربیع الاوّل اہل ایمان کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں اور مخلوقات کیلئے اس عظیم نعمت سے نوازے جانے کا دن ہے جس کے صدقے اور وسیلے سے ہمیں رضائے الٰہی اور بہشت سمیت ہر نعمت ملنی ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک اللہ کی نعمت عظمیٰ ہے اور باقی جملہ نعمتیں آپ کے صدقہ سے ہیں۔ اسلئے سرور انبیاء کی تشریف آوری تمام عالمین کے لئے رحمت ہے اور سروردو عالم کی ولادت کا جشن منانا درحقیقت اللہ کا تشکر ادا کرنا ہے کہ اس رب رحمن و رحیم نے ہمیں ان کی اْمت میں پیدا فرمایا جن کی نسبت و شفاعت سے آخرت میں جنت و مقام ملے گا۔حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پوری دنیا ئے انسانیت کومنزل ملی۔

” جشن ولاد ت نبویۖ ” اْمت مسلمہ کو دعوت فکر دیتا ہے کہ انفرادی و اجتماعی سطح پر اسلام کے حقیقی تصو ر کو اجاگر کر کے اپنے کر دار و عمل کی اصلاح کی فکر کے ساتھ اللہ کی بند گی کا حق ادا اور احکاما ت الٰہی پر عمل یقینی بنایا جائے۔

Rabi-ul-Awwal

Rabi-ul-Awwal

12ربیع الاول تاریخ انسانیت میں وہ متبرک گھڑی ہے جس میں آفتاب رسالت کی روشنی نے جہان کو گمراہیوں اور تاریکیوں سے نکالا اور رب ذوالجلال نے سسکتی ہوئی انسانیت کو رحمت اللعالمین کی نعمت سے نواز ا جن کی ذات تمام بنی نوع انسانوں کیلئے نعمت ‘ رحمت اور مشعل را ہ ہے اور اگر مسلمان حقیقی معنوں میں رب کی عبادت کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت وسیرت پر بھی عمل پیرا ہوجائیں تو ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بن جائے۔

تحریر: عمران چنگیزی