چوہدری اسلم تجھے سلام

Karachi

Karachi

شہر کراچی میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا یا کوئی بم دھماکہ شدت پسندوں کی جانب سے امن تباہ کرنے کی کوشش ہوتی یا کسی بھی حساس علاقے میں مختلف گروپوں میں ہونے والا تصادم، ایک لمبا داڑھی والا سفید کپڑوں میں ملبوث جوان ہر موقع پر سب سے پہلے ان شدت پسندوں کے ساتھ مقابلہ کے لیے تیار رہتا۔ جسے نہ تو اپنی زندگی کی پرواہ تھی اور نہ موت کا ڈر، جس کا ایمان تھا تو ایک ہی کہ جب تک اس کی زندگی ہے کوئی بھی دہشت گرد اس کو مار نہیں سکتا۔ جو اپنی بیوی کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کہتا تھا کہ شیر کی بیوی شیرنی ہوتی ہے جو اپنے بچوں کے لیے کہتا تھا کہ وہ بھی پاکستان کی خدمت کریں گے، کراچی پولیس کا وہ جوان جو مختلف مواقعوں پر شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین کی اپنے طور پر مدد کرنا اپنے فرض سمجتا تھا۔

جی ہاں قارئین! میں بات کررہا ہوں کراچی میں موجود دہشت گردوں اور ملک دشمنوں گروہوں کو لگام ڈالنے والے اور دہشت گردوں کے لیے دہشت اور شیرکی علامت دلیر جوان ایس ایس پی شہید محمداسلم خان عرف چوہدری اسلم شہید کی جو ظاہری طور پر اب ہم میں موجود نہیں رہے لیکن وہ زندہ ہیں کیونکہ شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ کراچی پولیس کے ایس ایس پی CID چوہدری محمد اسلم نے 1984 میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر ASI)) کراچی پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی۔ جو اپنی ایمانداری ،دلیری ،سے کراچی میں ہرمشکل وقت پر آپریشن میں سب سے آگے رہے چوہدری محمد اسلم اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے پیش نظر ترتی کی منزلیں طے کرتے گئے۔اور کراچی کے کئی تھانوں میں S.H.Oبھی لگے رہے ۔

لیکن جس طرح وہ ترقی کرتے گئے ان کے اندر ملک کی خدمت کا جذبہ بھی یقنی طور پر بڑھتا گیا۔ اور وہ ترقی کرتے کرتے SSP CID کے عہدے تک جا پہنچے۔کراچی میں کوئی بھی آپریشن ہوتا یا کوئی دہشت گردی کا واقع افسران کی جانب سے سب سے پہلا نام چوہدری محمد اسلم کا ہوتا۔ لیکن دہشت گرد اور شدت پسند عناصر اس شیر جوان کو اپنی کاروائیوں میں بہت بڑی دیوار سمجھتے تھے۔ دہشت گردوں نے بھی اس بہادر جوان کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اور چوہدری محمد اسلم 9 جنوری بروز جمعرات اپنے خالق حقیقی سے جاملے، چوہدری اسلم پر ہونے والے حملے میں ان کے ساتھ موجود ان کے محافظ فرحان اور ڈرائیور کامران نے بھی موقع پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اور شہادت کے عظیم درجہ سے جا ملے۔ یہ تینوں کراچی پولیس کے وہ جوان تھے جن کی واقع ہی شہادت کی خواہش بھی تھی۔

Chaudhry Aslam

Chaudhry Aslam

ْلیکن آخر کیوں نہیں گورنمنٹ کی جانب سے عوام کی سیکیورٹی کے منصوبے بنانے والوں اور ملکی حفاظت کے لیے ہر وقت جان ہتھیلی پر رکھ کر پھرنے والے پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو ان کی ضروریات کے مطابق حفاظتی اشیاء فراہم کی جاتیں۔ کراچی آپریشن سے لیکر اب تک 4 ماہ میں 300 سے زائد پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے جو کہیں بم حملوں کا نشانہ بنے تو کہیں اندھی گولیوں کا۔ آخر صوبائی گورنمنٹ کی جانب سے کیوں نہیں کراچی پولیس کے بجٹ میں اضافہ کیا جاتا، آخر کب تک ہم چوہدری اسلم، کامران، اور فرحان جیسی قیمتی جانوں کا ضیاع برداشت کریں گے۔ اور حد تو یہاں تک جاپہنچی ہے کہ پولیس بجٹ سے خریدی گئی بم پروف گاڑیاں بجائے اس کے کہ پولیس آفیسروں کو حفاظت کے لیے دی جائیں افسران کی جانب سے مختلف سیاستدانوں کے حوالے کردی جاتی ہیں شہید چوہدری اسلم تو اب ہم میں موجود نہیں رہے لیکن انکی موت کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔

کراچی پولیس کے پاس جدید اسلحہ کانہ ہونا، بکتر بند گاڑیوں کا صہیح حالت میں نہ ہونا، اسلحہ کا زنگ آلود ہونا، اہلکاروں کے لیے ایک بڑی تعداد میں بلٹ پروف جیکٹس کا نہ ہونا بھی کراچی پولیس کے لیے دہشت گردوں کے ساتھ لڑنے میں ایک بہت بڑے مسئلہ کا سبب ہے حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ 31 ہزار پولیس اہلکاروں کے لیے صرف 4 ہزار بلٹ پروف جیکٹس کا ہونا نا کافی ہے آخر یہ سب چیزیں پولیس ڈپارٹمنٹ کو مہیا کرنا کس کی ذمہ داری ہے یقینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کو کنٹرول کرنے والے لوگ کیوں اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں اتنے غافل ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ کراچی میں مرنے والے ہزاروں بے گناہ شہریوں اور SSP چوہدری اسلم کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کے ساتھ ہر ممکن سختی سے پیش آنا ہو گا۔ لیکن گورنمنٹ آف سندھ اور وفاقی گورنمنٹ کو بھی پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ پولیس کے پاس محدود وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کو جدید اسلحہ، بم پروف گاڑیاں، بلٹ پروف جیکٹس مہیا کرنا ہوں گی۔ تا کہ ایس ایس پی چوہدری اسلم خان جیسے دلیر جوانوں کے حوصلے بلند ہوتے رہیں۔ انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب چوہدری اسلم کا خون رنگ لائے گا۔ اور یقینا کراچی ایک بار پھر امن کا گہوارہ اور روشنیوں کا شہر بنے گا۔

Abdul Rauf Chouhan

Abdul Rauf Chouhan

تحریر: عبدالروَف چوہان(لاہور)