وجہ وجودِ کائینات کی آمد

Eid Milad Un Nabi

Eid Milad Un Nabi

سید المرسلین، خاتم النبیین، فخرِ موجودات، وجہ وجودِ کائینات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالمِ انسانیت کے لیے وہ عظیم انقلاب لے کر آئے جس نے کفر و شرک، وحشت و بربریت، ظلم و جبر، ناانصافی اور جہالت کے سارے بُت پاش پاش کر کے سسکتی خزاں رسیدہ انسانیت کو کیف و مستی سے لبریز بہاروں سے روشناس کرا دیا۔ آج ہم اُسی عظیم ترین ہستی کا یومِ ولادت باسعادت منا رہے ہیں جس کی ذاتِ گرامی کو ربّ کائینات نے وہ عظمت و رفعت اور مقامِ بلند عطا فرمایا جس پرروزِ ازل سے کوئی دوسرا جلوہ افروز ہوا، نہ تا ابد ہو گا۔ یوں تو ربّ ِ کریم نے حکمت کی کتاب میں درج کر دیا کہ تمام نبی آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اُن کے درجات اُن کے ربّ کے ہاں ہیں لیکن اُسی حکمت کی کتاب میں میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ”مقامِ محمودہ” کی نوید بھی درج ہے۔ یہ وہی افضل ترین مقام ہے جسے مفسرین مقامِ شفاعت بھی کہتے ہیں اور روزِ قیامت اسی مقام پر کھڑے ہو کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اُمت کی شفاعت کی دُعا فرمائیں گے۔ یہ مقام بس میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہی مخصوص ہے اور کسی کے لیے نہیں۔ اسی کتابِ حکمت میں ”و رفعنا لک ذکرک” بھی درج ہے جو گواہی ہے میرے رَبّ کی کہ میرے آقا سے بڑھ کر کسی کا ذکر بلند ہے، نہ ہو سکتا ہے۔

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جبرائیل امین میرے پاس آئے اور اُنہوں نے کہا ” میرا اور آپ کا رب مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں نے کس طرح آپ کا ذکر بلند کیا ”؟۔میں نے کہا ”اللہ ہی بہتر جانتا ہے ”۔ تب جبرائیل امین نے فرمایا ” اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بھی کیا جائے گا ”۔ عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے جانے والے بھی میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے کا حکم بھی ربّ ِ کائینات نے ہی دیا ہے۔ اِس لیے یہ تو طے ہے کہ

”بعد از خُدا بزرگ توئی، قصّہ مختصر

وجہ وجودِ کائینات ختم المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیاتِ انسانی کی معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی اور مذہبی زندگی کے ایک ایک پہلو کو منور کرنے کے لیے ایک ایسا ضابطۂ حیات عطا فرمایا جو ہر لحاظ سے مکمل اور کامل ہے اور اُس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے اپنے آخری خطبے میں یہ ارشادبھی فرما دیا کہ اللہ کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سُنت کو مضبوطی سے پکڑنے والے تا قیامت گمراہ نہیں ہو سکتے ۔لا ریب وطنِ عزیز میں حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر مسلمان کے دل کو یوں مسخر کر رکھا ہے کہ ابلیسیت کا وہاں سے گزر ممکن ہی نہیں ۔ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ واحد محور و مرکز ہے جس پر ہم سب بِلا امتیاز ایک ہیں ۔یومِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہم اپنی ایمان افروز عقیدتوں کا بھرپور اظہار بھی کرتے ہیں ۔میلاد کی محافل سجاتے ، گھروں اور مساجد میں چراغاں کرتے ، سڑکوں اور بازاروں میں جھنڈیاں لگاتے اور جلوسوں میں با آوازِ بلند درور شریف بھی پڑھتے ہیں۔

Muhammad (PBUH)

Muhammad (PBUH)

اِس دن ہر گھر اور ہر دَر روشنیوں کا عجب مسحور کُن نظارہ پیش کرتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے فضائیں بھی حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معطر ہو گئی ہوں لیکن۔ لیکن جوں ہی یہ دن تمام ہوتا ہے ہمارے اندر کے سہمے سُکڑے شیطان سینہ تان کر باہر آ جاتے ہیں اور ہم حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے تمام تقاضوں کو بھلا کر شیطانِ رجیم کی غلامی کا طوق اپنے اپنے گلے میں سجا لیتے ہیں۔ پھر وہی فرقہ واریت ، وہی گروہوں میں بٹی قوم ، وہی لسانی فسادات اور وہی مباحث کے ”شہید کون؟۔ حالانکہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم جذبۂ ایمانی سے سرشار ہو کر اُس مکمل ضابطۂ حیات کے لیے باہر نکل پڑیں جس کے نفاذ کے بعد ہمارے گمراہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اِس کی ضمانت خود میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ ایک تو من حیث القوم ہماری پختگی ٔ ایماں کا یہ عالم ہے کہ

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اور دوسرے کس کی شریعت اور کس کا دین نافذ کریں؟، شیعہ کا، سُنی کا، بریلوی کا، دیو بندی کا، اِہلِ حدیث کا یا پھر طالبان کا؟۔ یہ فرقہ واریت کا عفریت ہمارے علمائے کرام کا عطا کردہ ایسا تحفہ ہے جس نے سیکولر طبقے کو بجا طور پر یہ کہنے کا حق دے دیا ہے کہ فی زمانہ (نعوذ باللہ) اسلام کا نفاذ ممکن ہی نہیں ۔ہمارے دائیں بازو کے سیاستدان ہوں یا بائیں بازو کے ، سبھی کو وہ جمہوریت مرغوب ہے جس میں بقولِ اقبال ”بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے ” ۔دینِ مبیں میں تو صرف ”صائب الرائے ” کو ہی رائے دینے کا حق ہے ہر ”صاحب الرائے” کو نہیں لیکن جمہوریت میں فاتر العقل کا بھی ایک ووٹ ہوتا ہے اور مسلمہ دانشور کا بھی ایک ہی ۔اسی لیے جمہوریت بہترین انتقام ہے اور اِس منتقم مزاج جمہوریت کا رول بھی صرف راندۂ درگاہ لوگوں پہ چلتا ہے ۔ اِس جمہوریت کے تحت جو آئین بھی بنا لیجئے ، اُس کا نفاذ صرف مجبور و ں اور مقہوروں پر ہی ہو گا اور یہ آئین اشرافیہ کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا ۔یہ بھی جمہوریت کا ہی ثمر ہے کہ مفلس جرم کرے تو بد ترین کال کوٹھری اور مقتدر کرے تو پُر تعیش گھر میں نظر بندی ۔ مفلس کے لیے قانونی چنگیزیت ہمہ وقت تیار اور مقتدر کے لیے ”مردِ بیمار۔

اب جبکہ یہ طے ہے کہ ہم اُس مکمل ضابطۂ حیات کو نافذ کرنے کے اہل نہیں جو صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ عالمِ انسانیت کے لیے ربِ کردگار کا عظیم تحفہ ہے اور جسے میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملی طور پر نافذ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ اِس سے مکمل کوئی ضابطۂ حیات ہو ہی نہیں سکتا ، تو کیا ہم اجتماعی نہ سہی اپنی انفرادی زندگی میں اسے اپنی ذات اور اپنے خاندان پر نافذ کرنے کے قابل بھی نہیں ؟۔ کیا روحِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ تقاضہ نہیں کہ اگر ہم واقعی عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو پیرویٔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی زندگی کا محور و مرکز بنا لیں ؟۔ہم ”انجمن غلامانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” اور ” انجمن عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” بنانے میں تو بہت تیز ہیں لیکن کیا ہماری عملی زندگی میں حبِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی نظر آتی ہے ؟۔

میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو جو کچھ ارشاد فرمایا ، اُس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا اور لا ریب ہماری معاشی ، معاشرتی اور مذہبی زندگی کے ہر پہلو کی عملی شہادت میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کی صورت میں پوری صراحت کے ساتھ نظر بھی آرہی ہے اور یہ اعجاز ہے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کہ وہ ہر شخص اور ہر شعبۂ زندگی کے لیے عملی نمونہ ہیں ۔پھر کون ہے جو روزِ قیامت کہہ سکے کہ وہ راہِ راست سے محض اِس لیے بھٹک گیا کہ اُس کے سامنے کوئی مثال ہی نہیں تھی ۔یومِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چراغاں بجا جلسے جلوس اور میلاد کی محافل بھی درست کہ یہ ہماری عقیدتوں کا کھلا اظہار ہے ۔سوال مگر یہ ہے کہ 365 دنوں میں سے صرف ایک دن اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرکے باقی سَچے اور سُچے عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بَن پاتے ہیں ؟۔پتہ نہیں یہ کمزوریٔ عشق ہے یا کمزوریٔ ایماں کہ ہم کائینات کی محبوب ترین ہستی کے تتبع میں ایک لمحہ بھی گزارنے کو تیارنہیں، دعویٰ پھر بھی یہ کہ ہم عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

Professor Mazhar

Professor Mazhar

تحریر: پروفیسر مظہر