اب بھی کوئی امید ہے……؟؟؟

Aitzaz Hassan

Aitzaz Hassan

ًً خیبر پختونخوا میں خصوصاً طالبان نے اپنی کاروائیاں تیز کر دی ہیں، وزیرآعظم کے مشیر امیر مقام پر ١٢ جنوری کو پولس کے مطابق ریموٹ کنٹرول حملہ تھا جس میں٤، اہلکاروں سمیت ٦ افراد باں بحق ہوئے، یہ کے پی کے میں دشت گرد حملوں کا تیسرا واقع ہے اور ٦ جنوری، خود کش حملہ جو ہنگو کے گاؤں ابراہیم زئی میں سکول پر ہونا تھا ایک طالبعلم اعتزاز حسین نے جوانمردی کا مطاہرہ کرتے ہوئے خود کو قربان کر کے خود کش حملہ آور سے لڑ گیا اور یوں ایک بڑی تباہی سے سکول بچ گیا۔

بنوں میں ایک سکول اڑا دیا، پشاور میں پولیس موبائل پر حملہ ایف سی اہلکار جاں بحق ٣ زخمیِ تب حکمرانوں اور سیاست دانوں کی طرف محض روائتی مذمتی بیانات کے بعد خاموشی اور کراچی میں ایک دیانت دار جری پولیس آفیسر کو بھی دشگرد حملہ میں شہید کر دیا۔

اعلانیہ طالبان نے ہر حملہ کی زمہ داری قبول کی ،یہ حملہ دراصل حکومتی رِٹ پر حملہ تھا جس پر حکومت کی طرف سے محض روائتی مذمتی بیانات آئے، اِس واقع کی اہم اطلاع یہ ہے کہ فضل اللہ امیر طالبان اور شاہد اللہ شاہد کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی مگر کیا پاکستانی قانون کے ہاتھ اُن تک پہنچ سکتے ہیں۔

اُنہیں کٹہرے میں لایا جاسکتا ہے؟ اس سے قبل آج تک کسی کو کوئی سزا ہوئی؟ بلکہ جنہیں عدالتوں نے قتل و غارت گری میں سزائیں سنائی اُن پر عمل درآمد بھی گزشتہ سال اگست میں روک دیا، کیونکہ طالبان انتظامیہ نے حکومت پاکستان کو کھلے ننگے لفظوں میں سخت وارننگ دی تھی کہ اگر سزاؤں پر عمل کیا گیا تو ….اور موجودہ حکومت نے سزاؤں کو موّخر کر دیا اور اب یہ ایف آئی آر وہ بھی امیر طالبان مولانا فضل اللہ اور ترجمان شاہد کے خلاف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان مضحکہ خیز ہے اُن کا کہنا کہ طالبان اور حکومتی مذاکرات کی راہ میں سپیڈ بریکر بنانے والوں پر نظر رکھنا ہوگی ،کیونکہ ٦جنوری سے١٢،امیر مقام پر حملے تک کسی کی نظر میں نہیں آئے … !وزیر داخلہ نثار علی خان کا کہنا کہ وہ مولانا فضل اللہ اور شاہد اللہ شاہد کی طرف کسی قسم کی بات چیت سے انکار کے باوجود ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں ایسا استدلال صرف کمزور فریق ہی دیگا اور ساتھ ہی یہ بھی کہنا کہ مذاکرات کا گولی سے جواب دینے والوں کے خلاف جنگ کریں گے جو گروپ حکومتی پیش کش کا جواب دیں گے۔

اُن سے مذاکرات کریں گے مگر طالبان کے مراکز سے بے خبر ہیں…،،کیا خوب اخباری بیان ہے وزیر داخلہ ہواور اُن کے مراکز سے بے خبر…. ،گو پوری دنیا اُن کے مراکز سے با خبر ہے اور اگر بے خبر ہیں تو ہمارے وزیر داخلہ وہ اپنے گھر میں صفائی کرنے والے ہی سے پوچھ لیتے تووہ بھی بتا دیتا کہ جناب امیر المومنین کا صدر مقام ریاست شمالی وزیر ستان ہے وزیر داخلہ کی یہ بھی رائے کہ غیر ملکی طاقتیں مذاکرات ناکام بنانے کے لئے ڈرون حملے کر رہی ….!دینی جماعتیں خیبر پختونخوا میں اور کراچی ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم خان پر خود کش حملے پر خصوصاً مولانا سمیع الحق طالبان سے رابطوں کے دعویدار خاموش رہے کیوں؟ اب طالبان سے مذاکرات میں رکاوٹ ڈرون یا خودکش حملے؟ جنوری میں جتنے حملے ہوئے اُن پر خاموشی کے بعد ١٢جنوری کو اسلام آباد میں دفاع پاستان کونسل کے زیر احتمام سیمینار میں مولانا سمیع الحق اپنے ساتھیوں کے ساتھیوں اور پوفیسر حافظ سعید کے وہی راگ الاپا کے بھارت اور امریکا پاکستان میں امن مذاکرات کی کوششیں کامیاب نہیں ہونے دے رہے۔

Taliban

Taliban

جبکہ ہر حملے کی زمہ داری اعلانیہ طور پر طالبان قبول کر کے مذاکرات کی راہ ہموار کرتے ہیں ،اور…! اب چوہدری اسلم خان پر حملے کے بعد جب مولانا فضل اللہ اور شاہد اللہ شاہد کے خلاف نامزد ایف آئی آر درج ہوئی تو انہوں نے مذاکرات سے انکار بھی کیا، مگر دفاع پاکستان کونسل پھر بھی یہ سچ تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور…طالبان کو تھپکی دی کہ تم اپنا کام جاری رکھو ہم ملبہ امریکا اور بھارت،اور کبھی اسرائیل پر ڈالتے رہیں گے، کیونکہ یہ پاگل دنیا کیا جانے، مگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو وہ کہہ رہے وہی دنیا بھی کہے گی یا پھر دنیا کے علم میں اضافہ ہو کہ وہ ابھی تک بے خبر ہے جیسے وزیر داخلہ کہ طالبان کے مراکز سے لاعلم …. اگر یہ کہا جائے کے یہی دینی قوتیں ملک میں امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں تو کچھ غلط بھی نہیں اور طالبان کو مکمل شہ حاصل ہے۔

اب مولانا فضل الرحمن نے بھی زبان کھولی اور کہا طالبان اور حکومتی مذاکرات کی راہ میں سپیڈ بریکر بنانے والوں پر نظر رکھنا ہوگی . …! بقول ان دینی قوتوں سپیڈ بریکر تو امریکا اوربھارت بناتے ہیں وہ بھاری معاوضہ ڈالروں کی صورت میں ادا کرتے ہیں کیونکہ سپیڈ بریکر بنانے والے ماہرکاری گراور خام مال تو بہر حال یہاں سے ہی دستیاب ہوتا ہے، خدا کے لئے کبھی تو قوم کے سامنے سچ کہیں، جناب مولانا فضل الرحمن کا صائب مشورہ ہے وزیر داخلہ جناب نثار علی خان صاحب سے اور کوئی بہتر شخصیت نہیں کیونکہ انکی نگاہ دور دور تک کام کرتی ہیں وہ اِن رکاوٹوں کو …،اِسی طرح بعض کا یہ کہنا کہ شمال مغربی علاقوں کی جغرفیائی اور طبعی حالات دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی میں رکاوٹ ہیں ،کہ ١٩ ویں صدی میں سکھ اور انگریز بھی یہاں بالا دستی قائم کرنے میں بھاری جانی اور مالی نقصان برداشت کر کے ناکام رہے۔

ایسے خیالات کا اظہار درست نہیں، انگریز نے اِس علاقے کو انتظامی طور صرف پانچ ایجنسیوں میں تقسیم کیا تھا۔ مالاکنڈ ایجنسی ،صوبے کی ایک تہائی رقبے پر جس میں ریات سوات، دیر، اور چترال، باجوڑ، مہمند اور بہت بڑا علاقہ صرف ایک پولیٹیکل ایجنٹ مالاکنڈ میں بیٹھا کنٹرول کرتا تھا اور مثالی امن تھا اسی طرح خیبر ایجنسی، درہ ادم خیل اورک زئی تیراہ جیسے دور دراز علاقے، کرم ایجنسی، صرف وزیرستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔

انگریز کی تقسیم کے مطابق صوبہ ٦، اضلاع اور پانچ ایجنسیوں میں تقسیم تھا اور …..! ٧٠ کی دہائی تک یہا ں مثالی امن تھا ٤٧ تک شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے، انگریز نے اس علاقے کی سائیکی کا گہرا مطالع کیا اور کامیابی سے نصف صدی تک حکومت کی….جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انگریز ناکام ہوأ وہ دراصل یہ کہہ کر طالبان کو تقویت دیتے ہیں اور سچ چھپاتے ہیں۔

اب طالبان نے کسی قسم کی لچک دکھائے بغیر مذاکرات سے انکار کر دیا کہ انہیں باہر سے اسلحہ اور ڈالر ملتے ہیں اور اندر سے دینی حلقوں کی مکمل. حمائت حاصل ہے جو ڈرون حملوں کے خلاف اُنہیں تقویت دے رہے ہیں، کیونکہ اگر طالبان کو کوئی خوف ہے تو وہ صرف ڈرون سے کیونکہ اُس سے چھپ نہیں سکتے ورنہ تو فوج سے ہر گز خائف نہیں جب چاہیں جہاں چاہیں کاروائی کر سکنے میں آزاد ہیں ،جی ایچ کیو، یا کامرہ یا چوہدری اسلم ایس پی سی آئی ڈی پر حملہ کوئی روکنے والا نہیں ..فوج کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والا ملک ،قوم اور آئین کا باغی لیکن انہیں کوئی باغی نہیں کہ سکتا چہ جائکہ طالبان نے اعلےٰ فوجی آفیسروں سمیت آٹھ ہزار ملکی سرحدوں کی محافظ فوج کو موت کے گھاٹ اتارا ،اور بعض کو اغوا کر کے بے دردی قتل کیا اور…. اتنے تو شائد ٦٥،اور٧١ کی جنگ میںکام نہیں آئے ہونگے… مذاکرات کی گردان کرنے والے ملک کو کمزور کرنے کی پالیسی پر کام کر رہے، جبکہ طالبان اپنے ایجنڈے پر تیزی سے کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں پہلے مرحلے پر پاکستان کو فتح جہاں قریب پہنچ چکے ہیں۔

،کیونکہ یہاں سے اگلے تارگٹ کے لئے وسائل اور حمائت ملے گی اُنکے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں، امن پسند اور دہشت گردی سے خوف زدہ عوام میں فوج کا کردار بھی مشکوک ہو رہا ہے، اور میاں صاحب اب بھی مذاکرات کی رٹ لگا رہے، مذاکرات کی گردان کرنے والے، یہ تو بتائیں کہ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہے، نیز مسلہ کیا جس نے ہزاروں معصوم پاکستانیوں کی جان لی اور دنیا میں ہماری شناخت مسخ ہو گئی جس کا ہر روز رٹہ لگایا جا رہا ہے آخر مذاکرات کس مسلہ کے حل کے لئے ہونگے مسلہ ہے کیا ہو گی۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر : ع.م بدر بدر سرحدی