اسلام آباد (جیوڈیسک) مشہور کہاوت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم اور نا انصافی کے ساتھ نہیں۔ مظلوم کو ظلم سے نجات اور انصاف کی فراہمی کیلئے پولیس اور عدلیہ کا کردار سب سے اہم ہے۔ مملکت خداداد کے معرض وجود میں آنے کے بعد عام آدمی کو انصاف کی فراہمی ہمیشہ ایک خواب کی طرح رہی۔ محکمہ پولیس میں پائی جانے والی کرپشن، روایتی سست روی، جرائم کو روکنے میں عدم دلچسپی اور سست عدالتی نظام کے باعث مظلوم انصاف کے حصول کیلئے برسوں تھانوں اور کچہریوں کے چکر لگاتا ہے۔
پھر بھی اس کیلئے انصاف ایک خواب ہی رہتا ہے، اگر کئی سالوں تک تھانوں، کچہریوں اور وکیلوں کے دفتروں کے چکر لگا کر خوار ہونے کے بعد مظلوم کی داد رسی ہو بھی جائے تو بھی پورا انصاف شاذ ہی ملتا ہے۔ دوسری طرف با اختیار افراد کی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھنے والے بے گناہ بھی سالوں جرم بے گناہی کی سزا بھگتنے کیلئے جیلوں میں پڑے سڑتے رہتے ہیں، پولیس کی طرف سے کیس کا چالان عدالت میں ہی پیش نہیں کیا جاتا اور بے گناہ ’’مجرم‘‘ رہائی کے انتظار میں گھڑیاں گنتا رہتا ہے۔
ہر نئی آنے والی حکومت نے عام آدمی کو اس کے گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کے بلند وبانگ دعوے تو کئے مگر آج تک وہ دعوے سچ ثابت نہ ہو سکے۔ سابق دور حکومت میں پنجاب حکومت نے جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کے اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کیلئے پراسیکیوشن کا محکمہ بنایا جس کا مقصد عوام کو جلد انصاف کی فراہمی اور بے گناہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا تھا۔
موجودہ حکومت نے اپنے پچھلے پانچ سالہ دور میں اس ڈیپارٹمنٹ میں چند تبدیلیاں بھی کیں۔ اس سب کے باوجود کیا عام آدمی کو انصاف اس کے گھر کی دہلیز پر اور فوری ملنا شروع ہوگیا یا حالات جوں کے توں رہے؟ یہ جاننے کیلئے ایک مکالمے کا اہتمام کیا گیا جس میں وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی رانا مقبول احمد، چیف پراسیکیوٹر اینٹی ٹیررازم کورٹس چوہدری جہانگیر، ماہر قانون ربیعہ باجوہ، پیپلز پارٹی کے رہنماء و ماہر قانون بیرسٹر عامر حسن اور ہائیکورٹ بار ایسوسی کے نائب صدر غلام سرور نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔