یرغمال بوڑھے والدین

Wedding

Wedding

ثمینہ آج کل نہایت مصروف تھی اس کا گھر پنچایت کا گڑھ بنا ہوا تھا اس کا ایک قدم بڑے جیٹھ کے گھر تو کبھی دوسرا قدم چھوٹے جیٹھ کے گھر کبھی ایک پائوں بڑی آپا (نند) کے ہاں تو کبھی دوسر اپائوں باجی (نند )کے گھر چکر کاٹنے میں گزر جاتا تھا وہ اپنے مثبت مزاج کے باعث فریقوں کے درمیان رابطہ کا زریعہ یا گھن چکر بنی ہوئی تھی۔ بات دراصل یہ تھی کہ ثمینہ کے بڑے جیٹھ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی میں رازی خوشی سب بہن بھائیوں کو شریک رکھنا چاہتے تھے لیکن! ان کی تمنا کسی طرح پوری ہوتی نظر نہیں آتی تھی کیونکہ بڑی باجی نے شادی میں شرکت کا بایکاٹ کر دیا موقف ان کا بھی درست تھا انھیں غلہ تھا کہ جب انھوں نے اپنی پہلی بیٹی کی شادی کی تو بڑے بھائی صاحب ایک معمولی سی بات کو لے کر اتنے ناراض ہوئے کہ شادی میں شریک نہ ہو ئے وہ خود تو شریک نہ ہو ئے نہ سہی، اپنے ساتھ بوڑھے والدین کو رکھنے کے زعم میں نانا، نانی کو بھی نواسی کی شادی میں شرکت کی اجازت نہ دی۔

نواسی کی شادی میں شرکت کرنے کاارمان لئے نانا، نا نی دل مسوس کر رہ گئے وہ دونوں کر بھی کیا کر سکتے تھے بیٹے کی حکم عدولی کا مطلب تھا گھر سے در بدری جو وہ بلکل افورڈ نہیں کر سکتے تھے اور بچوں کی نسبت وہ اپنے بڑے بیٹے کے ہا ں زیا دہ سہولت سے گزر بسر ہو رہی تھی اس بات کا فائدہ اٹھا کر بڑ ے بیٹے نے ماں ،با پ کو یر غمال بنا لیا تھا جس سے جی چا ہتا انھیں ملنے دیتے جس سے وہ خود نا راض ہو تے تو ما ں با پ کو بھی جر ات نہ تھی کہ وہ ان سے رابطہ رکھتے خواہ وہ ان کی سگی اولاد ہی کیوں نہ ہو ثمینہ نے مجھے ایک مر تبہ اپنا قصہ بھی سنایا تھا کہ کس طرح ا سکے شوہر اور جیٹھ میں کسی بات پر تکرار ہو گئی تھی تو جیٹھ صا حب نے ماں باپ کو پانچ سال تک بیٹے سے ملنے نہیں دیا ثمینہ کے شوہر کبھی کسی تقریب تو کبھی کسی رشتہ دار کے ہاں اتفاقا ما ں، باپ سے ملتے وہ بھی چوری چھپے کہ بھائی کو پتہ نہ چل جا ئے یہ سلسلہ پا نچ سال تک چلا آخر صلح صفا ئی ہو ئی اور ما ں ،باپ سے ملنے کے راستے بحال ہو ئے لیکن١ اب سیر کو سوا سیر کے مترادف بڑی با جی ادھار چکا نے کے موڈ میں تھیں۔

TV

TV

سو وہ اس شادی میں کسی صورت شریک ہو نے پر راضی نہ تھیں جیٹھ صاحب کی جا نب سے خاندان کے برزگوں کو سفارشی مشن پر بھیجا جا رہا تھا معافی اور درگزر کی کئی اسلامی اور خاندانی روایات وکہانیوں کے حوالے اور مثالیں پیش کی جا رہی تھیں مگر بڑی باجی ٹس سے مس نہ ہوئیں خاندان کے تمام بزرگ ان کی اس دلیل کے آگے خاموش ہو جاتے اور انھیں حق بجانب سمجھتے ان کا شکوہ تھا کہ بڑے بھائی کود شریک نہ ہوئے کوئی بات نہیں مگر ماں، ابا کو تو شرکت کی اجازت دے سکتے تھے میرے گھر کی پہلی شادی تھی بھائی صاحب نے اماں ابا کو یر غمال بنا رکھا ہے۔ یہ ایک ہمارے معاشرے کا عام سا واقعہ ہے مگر المیہ یہ ہے کہ نجانے ایسے کتنے والدین ہیں جو اپنے بچوں کے ہاتھوں یر غمال ہیں نہ اپنی مرضی سے کہیں آجا سکتے ہیں نہ کسی سے ملا سکتے ہیں اسی قسم کا ایک واقعہ ٹی وی پر ایک سماجی پروگرام میں دیکھا جس میں ایک بوڑھے والد اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لے کر آئے والد بزرگوار کے تین بیٹے تھے انھوں نے ڈرائیور کی نوکری کرتے ہو ئے تینوں بیٹوں کو بہت اعلیٰ تعلیم دلائی بیٹوں نے تعلیم سے فراغت کے بعد جب زندگی کی دوڑ میں اچھے اسٹیٹس پر پہنچے تو والد کو اپنے پر انے دوستوں سے رابطہ رکھنے پر پا بندی لگا دی بیٹے اس با ت پر ہتک محسوس کرتے تھے کہ انکے والد معمولی کام کرنے والوں سے ملنا جلنا رکھیں۔

ہماری مشرقی اقدار میں والدین کی خدمت اور تعظیم پر اب بھی بہت سے گھرانے سختی سے پا بند ہیں لیکن! جس تیزی سے ہما رے سماج میں مغربی لائف اسٹائل درآمد ہو رہے ہیں اس کی نظیر پہلے کبھی نہیں ملتی اب سے محض چند سال پہلے اولڈ ہاوس کے نام سے ہمارے لوگ سوچتے تھے کہ کیسی بری اولاد ہے جو والدین کو اولڈ ہاوس میں قید کرا دیتی ہے مگر آج ہمارے اپنے ملک میں بزرگوں کے لیے پنا ہ گا ہیں بننی شروع ہو گئی ہیں اب نہ کو ئی چو نکتا ہے نہ افسوس و دکھ کا اظہا ر کرتا ہے کسی کو بھی اس بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ہے سب نے مصلحت کی چادر اوڑھ لی ہے اور کہیں والدین اولاد کے ساتھ رہتے بھی ہیں تو وہاں ثمینہ جیسی مثالیں بھی مو جود ہیں اولادوں نے اپنا ہی ضابطہ اخلاق والدین پر لا گو کیا ہوا ہے کہ جہاں جس سے ہم ملیں گے ا پ بھی اسی سے ملیں گے ورنہ سے آ گے بہت کچھ ہے جو والدین کو یر غمال بننے پر مجبور کئے ہو ئے ہے۔

سمجھ نہیں آتا کہ ہم اپنے بزرگوں سے اس قدر لا پراوئی اور بے حسی کا رویہ کیوںر کھتے ہیں شائدہم بھول جا تے ہیں کہ ہم نے بھی کبھی بوڑھا ہو نا ہے بات چل نکلی تو میں آپ کو ایک اور رویہ سے متعارف کراتی جا ئوں اسی معا شرے میں ایک ایسی خا تون کو جا نتی ہوں جو اکلوتی بہو ہو نے کے زعم میں مبتلا ہیں گھر میںساس بہو کی معمولی سی ان بن پر وہ پچھلے پندرہ سالوں سے اپنی ساس سے ناراض ہیں اورایک ہی گھر میں رہتے ہو ئے سلسلہ کلام کو بند کئے ہو ئے رہنا اس طرح کی بے رخی وہ کس طرح نبھا تی ہو ں گی عقل حیران ہے ۔ان کی بوڑھی ساس کو خاندانی تقریبات میں خاموشی سے کو نے میں بیٹھے دیکھتی ہو ں تو دل بہت دکھی ہو تا ہے کیونکہ اس نا رضگی والی با ت کا بہت کم لو گوں کو علم ہے ایسی نجا نے کتنی خاموش مثالیں ہمارے آس پا س مو جو د ہیں ہمیں خبر بھی نہیں ہو گی۔

Calendar

Calendar

وقت جس تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم ماہ سال کو گن بھی نہیں پاتے کہ کیلنڈر تبدیل ہو جاتے ہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بے بسی کا یہ دور جلد ہم سب پر بھی آنے والا ہے خدارا اپنے بزرگوں سے اچھے برتائو کی ایسی مثالیں اپنے بچوں کے سامنے پیش کر یں کہ وہ بزرگوں کی خدمت کو زندگی کالازم و ملزوم حصہ سمجھنے لگے آج اگر ہم اپنے والدین کو یرغمال بنائیں گے تو کل تا وان بھی تو ہمیں ادا کرنا ہو گا یہ تو سب جا نتے ہیں کہ جیسا کریں گے ویسا ہی بھریں گے۔

تحریر: عینی نیازی