کنویں محبت کے

Humans

Humans

زندگی میں بطور انسان ہمیں بہت کم مواقع ملتے ہیں کہ ہم اپنے اندر کی صلاحیتیں کسی ایسے اچھے کام میں صرف کردے کہ آنے والے کل میں ہمیں کاش جیسا لفظ استعمال کرنے کی کوفت سے نہ گذرنا پڑے جو وقت آج ہمارے پاس ہے آنے والے دنوں میں ہمارے پاس نہیں ہوگا ہوسکتا ہے کہ نہ اقتدار ہو نہ یہ اختیار ہو اور نہ ہی یہ طاقت موجود ہواور زندگی ویسے بھی مواقع نہیں دیتی کیونکہ ہمارے اپنے پیدا کیے ہوئے مسئلے مسائل اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ خود ہمیں اپنے آپ سے ہی فرصت نہیں ملتی اور زندگی کے اسی گورکھ دھندے میں ہم نہ کچھ اپنا سنوار پاتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کا بھلا کرتے ہیں انسانی زندگی اب اتنی تیز ہوچکی ہے کہ ایک لمحے کی تاخیر برداشت سے باہر ہوجاتی ہے اسی لیے تو کسی اشارے کی لال بتی پر کچھ سیکنڈ کے لیے رکنا بھی ہمارے لیے باعث تکلیف بن جاتا ہے۔

ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کو روندتے ہوئے ہم اس برق رفتاری سے زندگی کی دوڑ میں شامل ہیں کہ اپنے پرائے کی پہچان کہیں دور کھو چکے ہیں مگر جب اچانک سانسوں کا زندگی اور جسم سے رابطہ ٹوٹتا ہے تو پھر ہماری ساری کی ساری تیزی اور مصروفیات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ہم میں سے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے آج کے بارے میں سوچتے ہونگے اکثر لوگ ماضی کو لیکر بیٹھے رہتے ہیں یا مستقبل کے سنہری خواب دیکھتے رہتے ہیں ہماری تربیت میں شائد کہیں نہ کہیں کوئی کمی ہوتی ہے کہ ہم بچپن میں جلدی جلدی بڑے ہونے کی سوچتے ہیں جب بڑے ہوجاتے ہیں اور کچھ کرنے کی ہمت ہوتی ہے تو پھر کہتے ہیں کہ بچپن بڑا اچھا تھا کاش ہم بچے ہی رہتے جب جوانی کی سرحدپر قدم رکھ کرکے ہم بڑھاپے کی دہلیز پار کرجاتے ہیں تو اس وقت ہمیں جوانی بڑی شدت سے یاد آتی ہے اگر ہم نے اپنی زندگی کے ہر حصہ میں اپنی استطاعت کے مطابق کام کیا ہو اور خلق خدا کی نیک نیتی سے خدمت کی ہو تو پھرآنے والا ہر پل ہمیں ایک نئی خوشی سے سرشار کریگااور ایسے لوگ اب ہمارے معاشرہ میں بہت ہی کم رہ گئے ہیں جن کے کیے ہوئے کام مدتوں یاد رکھے جائیں گے بعض لوگوںکے لیے قدرت ایسے مواقع پیدا کرتی ہے کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی وہاں کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو انکے مزاج کے خلاف ہو مگر انکے کے اندر جو انسان بیٹھا ہوا ہے۔

Allah

Allah

وہ انہیں مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ ابو بن ادم کے خواب کی طرح ایسے کام کرتے رہیں جن سے اللہ تعالی خوش ہوتا ہے آج کے اس نفسا نفسی اور مفاد پرستی کے دور میں بھی اگر کسی کو ایسے افراد سے ملنے اور انہیں دیکھنے کا شوق ہو تو دو افراد کا میں آپ کو بتائے دیتا ہوںان میں سے ایک جاوید محمود ہے جو آپ کوکبھی صوبائی محتسب کے دفتر میں اور کبھی پنجاب کے دور دراز دیہاتی علاقوں میں بوڑھے اور بے سہارا پاکستانیوں کی خدمت کرتا ہوا نظر آئے گااس عمر میں انکی پھرتیاں دیکھ کر ایسا لگتا ہے شائد وہ اپنا کوئی پچھلا حساب کتاب برابر کرنے میں مصروف ہیں ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے دور میں اتنا کام نہ کیا جتنا یہ آجکل کررہے ہیں دوسرے شخص ڈاکٹر سہیل ثقلین ہیں جو آپ کو لیڈی ایچی سن ہسپتال میں کبھی مالی کے روپ میں نظر آئے گا تو کبھی وارڈ بوائے کے رنگ میں رنگا ہوا ملے گا یہ منفرد انداز کا شخص اتنے اہم اہم عہدوں پر رہنے کے باوجود بھی اپنے مشن سے نہیں بھٹکا جہان گیا وہیں داستانیں چھوڑآیا زندگی ہمیشہ انسان کا ساتھ نہیں دیتی ان جیسے افراد سے ہم نے بہت سے کام لینے ہیں اگر آپ آج اس سیٹ پر ہیں تو ہوسکتا ہے کہ قدرت نے آپ سے اسی جگہ کوئی کام لینا ہو اور ہمیں ایسے افراد کو چن چن کر ایک لڑی میں پرونا ہے یہی ہماری امید ہیں یہی ہمارا پاکستان ہیں۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو زندگی کے مختلف حصوں میں اپنی اپنی ذمہ داریاںنبھا رہے ہیں اور اپنے طور پر اچھے کام بھی کررہے ہونگے اگر انہوں نے ایک سو افراد کی خدمت بغیر کسی لالچ کے کی اور ایک فرد سے کسی قسم کے لالچ کی امید رکھ لی تو سمجھیں کہ انکی پچھلی نیکیاں انکے نامہ عمال میں درج تو ضرور ہونگی مگر انکی عزت میں اضافے کا باعث نہیں بنے گی اس لیے بغیر کسی لالچ اور مفاد کے کام کرنے والے شخص سے اللہ تعالی ایسے ایسے کام کروالیتا ہے جو مرنے کے بعد بھی صدقہ جاریہ بن کر اسے زندگی بخشتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی ایسے افرد کا ذکر ہوتا ہے جسکی انسانیت کے لیے لازوال قربانیاں ہوں یا جس نے نیک نیتی کے جذبہ سے عوامی خدمت کے کام کیے ہوتو وہ شخص اپنے اصل حلیے میں ہماری تصوراتی آنکھ کے سامنے مسکراتا ہوا موجود ہوتا ہے آخر میں ان دونوں زندہ ہستیوں کے نام ایک اپنا ہی شعر۔
چلے آئو کہ در کھلے ہیں ابھی آنکھوں کے روحیل
نکالو ڈول خواہشوں کے ہم ہیں کنویں محبت کے

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر۔روہیل اکبر
03466444144