بلدیاتی انتخابات کے بارے میں جس بات کا خدشہ تھا آخرکار وہی ہوا میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ کی دھمکیوں اور دباو اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلان کردہ شیڈول کے باوجود ایک بار پھر سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دئیے گئے ہیں۔
اب الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا کی حکومت سے بھی کہا ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے لئے عدالتوں سے رجوع کرے۔ بلدیاتی انتخابات کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان انتخابات میں چھوٹے حلقوں میں مقامی نمائندے منتخب کئے جاتے ہیں جو عوام سے براہ راست رابطہ میں ہوتے ہیں اور ان کی مرضی و پسند پر عمل کرنے پر مجبور بھی ہوتے ہیں۔ مروجہ قوانین کے تحت حکومتیں بلدیاتی اداروں کو مناسب مالی وسائل فراہم کرنے کی بھی پابند ہوتی ہیں۔ اس طرح کثیر وسائل سے لیس یہ مقامی نمائندے گلی محلے اور دیہات کی سطح پر لوگوں کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔
فعال بلدیاتی ادارے قائم ہونے کی صورت میں عام آدمی جمہوری ثمرات سے بہرہ ور ہوتا ہے اور اس طرح اس کا سیاسی شعور بھی پختہ ہونے لگتا ہے۔ مقامی مسائل میں باہم مشاورت اور امداد باہمی کا کلچر فروغ پاتا ہے۔ بہت سے تنازعات بھی اس مؤثر نظام میں خوش اسلوبی سے مقامی سطح پر آپس میں مل جل کر حل ہو سکتے ہیں۔
اس طرح بہت سے معاملات میں عام شہری اور دیہات کے باشندے غیر ضروری مقدمہ بازی ، تنازعات اور جھگڑوں سے بچ جاتے ہیں۔ یہ نظام لوگوں کو جمہوریت میں عملی طور پر حصہ لینے کا اہل بناتا ہے۔مقامی سطح پر جمہوری اداروں کے قیام سے سیاسی قیادت کو مختلف انتظامی شعبوں میں تجربہ بھی حاصل ہونے لگتا ہے۔ اس طرح یہی نمائندے آہستہ آہستہ قومی سطح پر کردار ادا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
اس بارے میں دو رائے نہیں ہیں کہ ملک میں جمہوریت کو مستحکم اور بار آور کرنے کے لئے محض قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کافی نہیں ہیں۔ اس کے لئے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بے حد ضروری ہے۔ بلدیاتی انتخابات جمہوری نظام میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ستم ظریفی ہے پاکستان کی قومی سیاسی قیادت اس ملک کو اس بنیاد سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔
Iftikhar Mohammad Chaudhry
سابقہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے سے ریٹائرمنٹ تک بلدیاتی انتخابات پر اصرار کرتے رہے۔ انہوں نے بار بار یہ انتخاب منعقد کروانے اور اس کا انتظام کرنے کے احکامات جاری کئے۔ لیکن ہر بار صوبائی حکومتوں نے کسی نہ کسی بہانہ سے ان انتخابات کو ملتوی کروا دیا۔ افتخار چوہدری کا مؤقف تھا کہ پاکستانی آئین کے مطابق بلدیاتی انتخابات منعقد کروانا حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری اور عوام کا بنیادی حق ہے۔ تاہم ان کے احکامات اور باتیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں۔
پاکستان کا سیاسی کلچر نیچے سے اوپر کی جانب سفر نہیں کرتا بلکہ اعلیٰ قیادت کے احکامات کی روشنی میں اوپر سے نیچے کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ ملک کی ہر سیاسی پارٹی ایک شخص یا فیملی کی اسیر ہے اور اسی کا حکم حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ انتخابات میں ووٹ محض اس شخصیت کے فیصلوں کی تصدیق کے لئے ڈلوائے جاتے ہیں۔
ان سیاسی لیڈروں کو علم ہے کہ اگر انہوں نے آئین کے تقاضوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات کو ممکن بنا دیا تو اس طرح سیاسی حکام اعلیٰ کے فیصلوں کی اہمیت اور حیثیت کم ہونے لگے گی اور مقامی سطح سے لوگوں کی براہ راست تائید سے منتخب ہونے والے نمائندوں کی رائے اور فیصلوں کو مسترد کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ طریقہ ون پارٹی۔ ون مین کے مروج سیاسی کلچر کو تباہ کر دے گا۔ اس طرح لوگوں کا بھلا تو ہو گا لیکن سیاسی قیادت کی اہمیت اور قدر و منزلت ختم ہو جائے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت گزشتہ 5 برس تک بلدیاتی انتخابات کو ٹالتی رہی ہے۔ اس پارٹی کو برا بھلا کہہ کر جیتنے والی پارٹیوں نے بھی گزشتہ 7 ماہ کے دوران بلدیاتی انتخابات کی راہ میں ہر رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔ الیکشن کمیشن نے عدالتی احکامات کی روشنی میں سندھ میں 23 فروری اور پنجاب میں 13 مارچ کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔
سندھ میں لوکل باڈی آرڈیننس پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی برسر پیکار رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں سندھ ہائی کورٹ نے اس قانون کو معطل کر دیا ہے۔اسی طرح پنجاب میں کی گئی حلقہ بندیوں کو لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے نئی حلقہ بندیاں کروانے کا حکم دیا ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن کے لئے انتخابات کو ملتوی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اب سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلہ پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور بلدیاتی انتخابات غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دئیے گئے ہیں۔ اس بار انتخابات منعقد کروانے کے لئے نئی تاریخ کا بھی تعین نہیں کیا گیا۔ اس لئے سال رواں میں یہ انتخابات منعقد ہونے ممکن نہیں ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ لگتا ہے ملک کی عدالتوں نے بھی ملک کی سیاسی قیادت کے سامنے ہتھیار پھینک دئیے ہیں اور حکومتوں کے حیلوں بہانوں کو قبول کرتے ہوئے اس معاملہ میں دلچسپی کم کر دی ہے۔ اب الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا کی حکومت کو بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ صوبے میں اگلے ماہ منعقد ہونے والے انتخابات ملتوی کروانے کے لئے عدالتوں سے رجوع کرے۔ صوبائی انتظامیہ پہلے ہی یہ کہتی رہی ہے کہ وہ مقررہ مدت میں انتخابات مکمل کرنے کی اہل نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان انتخابی مہم کے دوران بلدیاتی انتخابات کے زبردست حامی تھے اور انہوں نے برسر اقتدار آنے کی صورت میں 90 دن کے اندر انتخابات منعقد کروانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ تاہم 7 ماہ گزرنے کے باوجود خیبر پختونخوا حکومت یہ وعدہ ایفا کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ اس کے لئے یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ صوبائی حکومت ووٹروں کی تصدیق کے لئے بائیو میٹرک سسٹم متعارف کروانا چاہتی ہے۔ گویا نہ 9 من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے اور عوامی حاکمیت کا دعویٰ کرنے والے لیڈروں کی طرف سے جمہوریت اور آئین کی اس بنیادی ضرورت کے بارے میں رویہ انتہائی افسوسناک اور ناقابل قبول ہے۔ ہر سیاسی پارٹی ملک میں نظام کی تبدیلی کا دعویٰ کرتی ہے تاہم جب تک یہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر اپنے رویوں میں تبدیلی برپا نہیں کریں گے۔ ملک میں جمہوری نظام استوار نہیں ہو سکے گا۔